Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

*اتراکھنڈ کے تین مدارس کو ملی راحت: ہائی کورٹ کا فیصلہ آئینی حق کی جیت*


*@مختصر_کالم*


   اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے دینی و تعلیمی اداروں پر جو خطرہ منڈلا رہا تھا، اُس پر آج ہائی کورٹ نے ایک بڑا فیصلہ سنا کر کچھ حد تک راحت دی ہے۔ 23 جون 2025 کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے حکومت کی طرف سے بند کیے گئے متعدد مکاتب و مدارس میں سے تین کو مشروط طور پر دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ صرف ان اداروں کے دروازے کھولنے کا نہیں بلکہ آئینی حقوق، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کی تعلیم پر ایک مضبوط مہرِ تصدیق ہے۔

یہ کامیابی راتوں رات نہیں ملی، بلکہ اس کے پیچھے جمعیۃ العلماء اتراکھنڈ، خاص طور پر مولانا شرافت علی قاسمی صاحب، حافظ شاہ نظر صاحب اور سپریم کورٹ کے وکلاء عمران علی خان، ایم آر شمشاد، اور فضیل ایوبی جیسے قانونی ماہرین کی محنت شامل ہے۔ خاص طور پر آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ اس بیان نے کہ "مکاتب کو اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ کی منظوری کی ضرورت نہیں"، حکومت کے غیر قانونی اقدامات کی بنیاد ہی ہلا دی ہے۔

مدرسہ ارشاد العلوم ڈھنڈیرہ، مدرسہ دارالعلوم قاسمیہ سلیم پور اور مدرسہ فیضِ عام گوجربستی، جو بندش کا شکار تھے، اب دوبارہ علم کا چراغ روشن کریں گے۔ یہ ایک امید کی کرن ہے ان تمام مدارس و مکاتب کے لیے جنہیں آئندہ نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

یہ فیصلہ یاد دلاتا ہے کہ اگر منظم طریقے سے، دانش مندی کے ساتھ، قانونی دائرے میں رہ کر جدوجہد کی جائے، تو حکومت کی زیادتیوں کو بھی عدالت میں شکست دی جا سکتی ہے۔ مگر یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہ تو ایک شروعات ہے۔ دیگر مدارس کے لیے قانونی ڈرافٹ تیار ہو چکا ہے، اور دعا ہے کہ انہیں بھی جلد انصاف ملے۔

وقت آ چکا ہے کہ ہم جذباتی احتجاج سے آگے بڑھ کر، قانونی، تعلیمی اور میڈیا کے محاذ پر بھی اپنی موجودگی درج کرائیں۔ یہی راستہ ہے اقلیتوں کے تحفظ اور مدارس کی بقا کا!

اللّٰہ پاک ہمارے مدارس کو آباد رکھے، آمین۔!

*آفتاب اظہر صدیقی*
کشن گنج، بہار

23 جون 2025

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے