(خالد سیف اللہ رشادى)
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی چاند کی ، جو تہہ مزار چلا گیا
آہ استاذ محترم مولانا قارى رىاض احمد صاحب قاسمى رح
گلشن ہستی میں جن قابل قدر شخصیات نے اپنے خون جگر سے چمن کی آب پاشی کی ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے اپنی حیات مستعار کے بیش قیمت نقوش انسانی دلوں پر مرتسم کیے ہیں ان میں ایک نمایاں نام مولانا و قارى رىاض احمد صاحب قاسمى رح جدید عربی و فارسى زبان و ادب کے ماهر ، اور جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ کے ناظم اعلى حضرت مولانا عامر رشادى مدنى صاحب کے استاد بھى هىں ۔قارى رىاض صاحب رح کی ولادت اترپردىش مىں واقع ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی۔
اور آپ رح معلم کردار، معلم ادب عربی فارسی کی حیثیت سے جامعہ الرشاد میں خدمات پر مامور تھے۔ اس وقت سے تاحیات آپ جامعہ الرشاد کے ایک بہترین استاذ کی حیثیت سے خدمات سے منسلک رہے
ایک طالبعلم کا خراج تحسین اپنے استاد محترم کے لئے کچھ عرصہ ہوا جب میں جامعہ الرشاد میں(خالد سیف اللہ )عالمیت کے آخری سال میں زیر تعلیم تھا۔ چونکہ میری فراغت2018ء میں ہوئی ہے۔ لیکن آج بھی ایسا لگتا ہے کہ میں کلاس میں بیٹھا ہوں اوراستاذ محترم اپنے ایک نرالے اور انتہائی حسین ودلکش انداز میں درس دے رہے ہیں اور فارسى عربی زبان وادب کی انتہائی پیچیدہ گتھیاں سلجھارہے ہیں اور ہمارے ذہن ودماغ پر علم کی برکھا برس رہی ہے۔ لگتاہے کہ علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر انتہائی سنجیدگی وقار کے ساتھ بہہ رہاہے اور اس کی موجیں قیمتی موتیاں بکھیررہی ہیں۔ لیکن ہم کم ظرف ہیں جو ان لعل وگہر سے دامن نہیں بھرپارہے ہیں۔ میں آپ کے استاذانہ ومربیانہ کردار کی ترجمانی کیوں کر کرسکتاہوں۔ بس صرف اس وقت کے ایک ماہر علم وفن، قابل وتعریف وتقلید قاسمى
مرحوم کافی خاموش مزاج۔ نرم طبیعت اور اچھے اخلاق کے حامل۔ ہمہ وقت فکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ انکی خاموشی گفتگو ہوا کرتی تھی۔
حضرت نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے آپ کو مفید ثابت کریں خصوصاً فکری محاذ پر جم کر کام کرنے کی ضرورت ہے.
حضرت کی ایک نصیحت فرمایا نے فرمایا کہ ادب اپنے اندر بہت بڑا انقلاب رکھتا ہے اگر اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو معاشرے میں بہت بڑی صالح تبدیلی لائی جا سکتی ہے اس لیے علماء کو چاہئے کہ اس میدان میں کمال پیدا کریں
علم وحکمت، دانش وآگہی قارى صاحب رح کی دلچسپی کا سامان ہیں، رح کی اٹھان ہی ایسی ہے کہ لکھنا پڑھنا زندگی کا ایک ضروری مشغلہ بن گیا ہے، بچپن سے علم وادب کی قدر اور زندگی کی تمام دوسری قدروں پر اس کی فوقیت کا احساس قارى صاحب رح کے ریشہ ریشہ میں پیوست ہے، رح کے شجرہ میں دونوں طرف علم وحکمت اور روحانیت ومعرفت رہی ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ آپ سلالۂ عظام اور زبدہ کرام ہیں،
آہ کیا شخص تھا جو محفل ویران کرگیا
یوں تو سب کو ایک دن اس دارفانی سے جانا ہے۔ لیکن موت اس کی جس کو زمانہ کرے یاد کے مصداق قارى صاحب کے رخصت ہونے سے ایک علم کی دنیا ویران ہوگئی۔ ایک چمن اجڑ گیا۔ کلیجہ منہ کو آرہاہے ۔ دل کی کیفیت عجب ہے، جس کا بیان شاید الفاظ وجملوں میں نہیں ہوسکتاہے۔ بس یوں لگ رہاہے کہ
''وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
دل پریشاں اور ذہن ودماغ قضا وقدر کے فیصلوں میں الجھی ہوئے ہیں اور زبان بے اختیار کہہ رہی ہے کہ
جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہيں
کہيں سے آب بقائے دوام لے ساقي!
علامہ اقبال
بارگاہ رب العز میں انتہائی عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ استاذ محترم کو ان کی خدمات کا بہترین بدلہ عطا فرمائے آمین۔
خالد سیف اللہ رشادى
0 تبصرے