✍️ تحقیق و تحریر: آفتاب اظہر صدیقی
آج کا انسان، جسے ہم جدید ٹیکنالوجی اور ترقی کا شاہکار سمجھتے ہیں، ایک ایسی دنیا میں جینے پر مجبور ہے جہاں ذہنی انتشار، وقت کا زیاں، اور غیر ضروری مصروفیات زندگی کی خوبصورتی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ ہر طرف ایک شور ہے—اطلاعات کا، خواہشات کا، مقابلے کا۔ ایسے میں سوال یہ ہے: کہ ہم واقعی کس چیز پر توجہ دے رہے ہیں؟ اور کیا وہ چیز واقعی ہماری زندگی میں کوئی معنی رکھتی ہے؟
معروف مصنف Darius Foroux اپنی کتاب "Focus on What Matters" میں ہمیں یہی سوال پوچھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ سٹوئک فلسفے، ذاتی تجربات، اور عملی مشوروں کی مدد سے ہمیں اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ ہم زندگی کے اصل مقاصد کی طرف واپس پلٹیں، اور اپنی توجہ اُن کاموں پر مرکوز کریں جو حقیقت میں اہم ہیں۔
*جدید طرز زندگی میں توجہ کا بحران*
کتاب کے آغاز میں Foroux یہ حقیقت بیان کرتے ہیں کہ آج کا انسان ایک طرف سے اسمارٹ فون، سوشل میڈیا اور خبریں، اور دوسری طرف سے کام، تعلقات اور خود سے متعلق الجھنوں میں الجھ کر اپنی توجہ کھو بیٹھا ہے۔ وہ "Seneca" جیسے سٹوئک فلاسفہ کا حوالہ دیتے ہیں، جنہوں نے دو ہزار سال قبل ہی ہمیں متنبہ کیا تھا کہ اگر ہم نے اپنے وقت اور توجہ کی حفاظت نہ کی تو ہماری زندگی بےمعنی ہو جائے گی۔
*اندرونی دنیا کی صفائی*
دماغی سکون کی بحالی کے لیے مصنف مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں روزانہ خود سے پوچھنا چاہیے: "کیا آج کی یہ پریشانی ایک سال بعد بھی اہم ہوگی؟" یہ سوال ذہنی خلفشار کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اسی طرح احساس شکر پر زور دیا گیا ہے۔ ہر دن کے اختتام پر اُن تین باتوں کو لکھنا جو مثبت ہوئیں—یہ معمولی عادت ذہن کو مثبت سوچ کی طرف راغب کرتی ہے۔
مصنف ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ غیر ضروری خیالات اور ذہنی رکاوٹوں کو خارج کرنا ایک اہم قدم ہے۔ ذہن کو ایسی جگہ نہیں ٹکنے دینا چاہیے جہاں ہر بے مقصد خیال قیام کرے۔
*بیرونی دنیا میں نظم و ضبط*
زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے روزانہ کے تین "سب سے اہم کام" یعنی MITs (Most Important Tasks) مقرر کرنا ضروری ہے۔ یہ وہ کام ہوتے ہیں جو ہمارے طویل المدتی اہداف سے جڑے ہوتے ہیں۔
Foroux معروف 80/20 اصول کا ذکر کرتے ہیں: ہماری 20 فیصد سرگرمیاں ہی 80 فیصد نتائج دیتی ہیں۔ اگر ہم ان مخصوص سرگرمیوں پر توجہ دیں تو زندگی میں مثبت تبدیلی آئے گی۔
اسی طرح گہری توجہ (Deep Work) کی طاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک وقت میں ایک کام کو مکمل توجہ دے کر کرنا، بکھری ہوئی توجہ سے کہیں زیادہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔
نظام الاوقات بنانا یعنی دن کے مختلف حصوں میں مخصوص کاموں کے لیے مخصوص وقت مختص کرنا، ایک مفید تکنیک ہے۔ صبح ۹ سے ۱۱ بجے تک صرف وہ کام کریں جو سب سے اہم ہو—اور اس دوران تمام خلفشار سے بچیں۔
مصنف ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ "نہیں" کہنا ایک ہنر ہے۔ ہر "ہاں" دراصل کئی دوسری چیزوں کے لیے "نہیں" ہے، لہٰذا وقت اور توجہ کی حفاظت کے لیے غیر ضروری ذمہ داریوں سے انکار ضروری ہے۔
*ذہنیت اور عادتیں*
زندگی میں کامیابی محض قسمت نہیں، بلکہ اختیار اور نیت سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کسی کام پر کیوں توجہ دے رہے ہیں؟ اگر اس کا جواب واضح ہو تو زندگی کا ہر قدم بامقصد ہو جاتا ہے۔
مصنف ہمیں بتاتے ہیں کہ ناکامی اور خوف رکاوٹ نہیں بلکہ محرک بن سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم اُن سے سبق لینے کا ہنر سیکھ لیں۔
مزید یہ کہ جسمانی اور ذہنی صحت کے بغیر توجہ کا ارتکاز ممکن نہیں۔ نیند، خوراک، اور ورزش پر توجہ دینا نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی کارکردگی کے لیے بھی ضروری ہے۔
سادگی ایک اور مرکزی نکتہ ہے۔ جب ہم زندگی سے فالتو چیزیں نکال دیتے ہیں، تو ہمارے لیے وہی چیزیں بچتی ہیں جو اہم اور قابلِ قدر ہوتی ہیں۔
مصنف چند سادہ مگر قیمتی اصول سکھاتے ہیں:
وضاحت، مہارت سے پہلے آتی ہے۔ یعنی جب مقصد واضح ہو، تو کامیابی آسان ہو جاتی ہے۔
فوری مقاصد پر عمل، مستقبل کو بہتر بناتا ہے۔
مسلسل چھوٹے قدم، بڑے نتائج لاتے ہیں۔
روزانہ کی مشقیں جیسے شکرگزاری، وقت کی پابندی اور ہفتہ وار جائزہ ہمیں باخبر اور توجہ مرکوز رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
*زندگی کو آسان، واضح اور بامقصد بنائیں*
Foroux آخر میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ توجہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اگر ہم اپنی توجہ کو ضائع ہونے سے بچا لیں، تو ہم زندگی کے ہر شعبے—کام، تعلقات، صحت، ذہنی سکون—میں بہتری لا سکتے ہیں۔
یہ کتاب صرف وقت منیجمنٹ یا productivity کے اصولوں پر مبنی نہیں، بلکہ یہ ایک فلسفیانہ رہنمائی ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ:
"زیادہ کچھ کرنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ وہی کرو جو اہم ہے—اور اُسے پوری توجہ سے کرو۔"
اگر آپ چاہتے ہیں کہ زندگی میں سکون ہو، کام مؤثر ہو اور دل مطمئن ہو، تو Darius Foroux کی یہ کتاب آپ کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے، تو کیوں نہ اُسے ضائع ہونے سے بچایا جائے اور صرف اُن چیزوں پر صرف کیا جائے جو حقیقتاً اہم ہیں۔
*از: آفتاب اظہر صدیقی*
کشن گنج، بہار
22 جون 2025ء
آج کا انسان، جسے ہم جدید ٹیکنالوجی اور ترقی کا شاہکار سمجھتے ہیں، ایک ایسی دنیا میں جینے پر مجبور ہے جہاں ذہنی انتشار، وقت کا زیاں، اور غیر ضروری مصروفیات زندگی کی خوبصورتی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ ہر طرف ایک شور ہے—اطلاعات کا، خواہشات کا، مقابلے کا۔ ایسے میں سوال یہ ہے: کہ ہم واقعی کس چیز پر توجہ دے رہے ہیں؟ اور کیا وہ چیز واقعی ہماری زندگی میں کوئی معنی رکھتی ہے؟
معروف مصنف Darius Foroux اپنی کتاب "Focus on What Matters" میں ہمیں یہی سوال پوچھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ سٹوئک فلسفے، ذاتی تجربات، اور عملی مشوروں کی مدد سے ہمیں اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ ہم زندگی کے اصل مقاصد کی طرف واپس پلٹیں، اور اپنی توجہ اُن کاموں پر مرکوز کریں جو حقیقت میں اہم ہیں۔
*جدید طرز زندگی میں توجہ کا بحران*
کتاب کے آغاز میں Foroux یہ حقیقت بیان کرتے ہیں کہ آج کا انسان ایک طرف سے اسمارٹ فون، سوشل میڈیا اور خبریں، اور دوسری طرف سے کام، تعلقات اور خود سے متعلق الجھنوں میں الجھ کر اپنی توجہ کھو بیٹھا ہے۔ وہ "Seneca" جیسے سٹوئک فلاسفہ کا حوالہ دیتے ہیں، جنہوں نے دو ہزار سال قبل ہی ہمیں متنبہ کیا تھا کہ اگر ہم نے اپنے وقت اور توجہ کی حفاظت نہ کی تو ہماری زندگی بےمعنی ہو جائے گی۔
*اندرونی دنیا کی صفائی*
دماغی سکون کی بحالی کے لیے مصنف مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں روزانہ خود سے پوچھنا چاہیے: "کیا آج کی یہ پریشانی ایک سال بعد بھی اہم ہوگی؟" یہ سوال ذہنی خلفشار کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اسی طرح احساس شکر پر زور دیا گیا ہے۔ ہر دن کے اختتام پر اُن تین باتوں کو لکھنا جو مثبت ہوئیں—یہ معمولی عادت ذہن کو مثبت سوچ کی طرف راغب کرتی ہے۔
مصنف ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ غیر ضروری خیالات اور ذہنی رکاوٹوں کو خارج کرنا ایک اہم قدم ہے۔ ذہن کو ایسی جگہ نہیں ٹکنے دینا چاہیے جہاں ہر بے مقصد خیال قیام کرے۔
*بیرونی دنیا میں نظم و ضبط*
زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے روزانہ کے تین "سب سے اہم کام" یعنی MITs (Most Important Tasks) مقرر کرنا ضروری ہے۔ یہ وہ کام ہوتے ہیں جو ہمارے طویل المدتی اہداف سے جڑے ہوتے ہیں۔
Foroux معروف 80/20 اصول کا ذکر کرتے ہیں: ہماری 20 فیصد سرگرمیاں ہی 80 فیصد نتائج دیتی ہیں۔ اگر ہم ان مخصوص سرگرمیوں پر توجہ دیں تو زندگی میں مثبت تبدیلی آئے گی۔
اسی طرح گہری توجہ (Deep Work) کی طاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک وقت میں ایک کام کو مکمل توجہ دے کر کرنا، بکھری ہوئی توجہ سے کہیں زیادہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔
نظام الاوقات بنانا یعنی دن کے مختلف حصوں میں مخصوص کاموں کے لیے مخصوص وقت مختص کرنا، ایک مفید تکنیک ہے۔ صبح ۹ سے ۱۱ بجے تک صرف وہ کام کریں جو سب سے اہم ہو—اور اس دوران تمام خلفشار سے بچیں۔
مصنف ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ "نہیں" کہنا ایک ہنر ہے۔ ہر "ہاں" دراصل کئی دوسری چیزوں کے لیے "نہیں" ہے، لہٰذا وقت اور توجہ کی حفاظت کے لیے غیر ضروری ذمہ داریوں سے انکار ضروری ہے۔
*ذہنیت اور عادتیں*
زندگی میں کامیابی محض قسمت نہیں، بلکہ اختیار اور نیت سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کسی کام پر کیوں توجہ دے رہے ہیں؟ اگر اس کا جواب واضح ہو تو زندگی کا ہر قدم بامقصد ہو جاتا ہے۔
مصنف ہمیں بتاتے ہیں کہ ناکامی اور خوف رکاوٹ نہیں بلکہ محرک بن سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم اُن سے سبق لینے کا ہنر سیکھ لیں۔
مزید یہ کہ جسمانی اور ذہنی صحت کے بغیر توجہ کا ارتکاز ممکن نہیں۔ نیند، خوراک، اور ورزش پر توجہ دینا نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی کارکردگی کے لیے بھی ضروری ہے۔
سادگی ایک اور مرکزی نکتہ ہے۔ جب ہم زندگی سے فالتو چیزیں نکال دیتے ہیں، تو ہمارے لیے وہی چیزیں بچتی ہیں جو اہم اور قابلِ قدر ہوتی ہیں۔
مصنف چند سادہ مگر قیمتی اصول سکھاتے ہیں:
وضاحت، مہارت سے پہلے آتی ہے۔ یعنی جب مقصد واضح ہو، تو کامیابی آسان ہو جاتی ہے۔
فوری مقاصد پر عمل، مستقبل کو بہتر بناتا ہے۔
مسلسل چھوٹے قدم، بڑے نتائج لاتے ہیں۔
روزانہ کی مشقیں جیسے شکرگزاری، وقت کی پابندی اور ہفتہ وار جائزہ ہمیں باخبر اور توجہ مرکوز رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
*زندگی کو آسان، واضح اور بامقصد بنائیں*
Foroux آخر میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ توجہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اگر ہم اپنی توجہ کو ضائع ہونے سے بچا لیں، تو ہم زندگی کے ہر شعبے—کام، تعلقات، صحت، ذہنی سکون—میں بہتری لا سکتے ہیں۔
یہ کتاب صرف وقت منیجمنٹ یا productivity کے اصولوں پر مبنی نہیں، بلکہ یہ ایک فلسفیانہ رہنمائی ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ:
"زیادہ کچھ کرنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ وہی کرو جو اہم ہے—اور اُسے پوری توجہ سے کرو۔"
اگر آپ چاہتے ہیں کہ زندگی میں سکون ہو، کام مؤثر ہو اور دل مطمئن ہو، تو Darius Foroux کی یہ کتاب آپ کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے، تو کیوں نہ اُسے ضائع ہونے سے بچایا جائے اور صرف اُن چیزوں پر صرف کیا جائے جو حقیقتاً اہم ہیں۔
*از: آفتاب اظہر صدیقی*
کشن گنج، بہار
22 جون 2025ء
0 تبصرے