*@مختصر_کالم*
بارہ غیر مسلموں کا ایک جہاز، نیلگوں سمندر میں لہروں سے کھیلتا ہوا، فلسطین کی مظلوم سرزمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ان کے چہروں پر خوشی، عزم اور امنگ تھی۔ کسی کے ہاتھ میں جھنڈا، کسی کے ہاتھ میں محبت کی علامت اور دلوں میں انسانیت۔ یہ کوئی عام سفر نہیں تھا، یہ ضمیر کا بیدار قافلہ تھا۔
اور ہم…؟ دو ارب مسلمان۔ ہماری تعداد کا شور تو بہت ہے، مگر کردار کا سکوت قبرستان جیسا۔ ان بارہ غیر مسلموں نے آج ہمیں آئینہ دکھا دیا۔ ان کا جہاز، ہمارا مکروفریب۔ ان کی ہمت، ہماری بے حسی۔ ان کا سفر، ہمارا حضر۔ ان کا عزم، ہماری غلامی۔ وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، ہم صرف تقریروں کے پہلوان بنے رہے۔ وہ سمندروں میں اتر کر ظالم کو للکار رہے ہیں، ہم اسٹیج پر زبان کے جوہر دکھا کر تالیاں بٹور رہے ہیں۔
فلسطین جل رہا ہے، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، مائیں کفن میں لپٹ رہی ہیں، اور ہم؟ ہم کانفرنسوں، ریزولوشنوں، اور سوشل میڈیا کے لایکس میں گم ہیں۔
ادھر ایک کمسن لڑکی، گریٹا تھنبرگ، ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہے۔ اور ادھر ہم، جن کے نبیؐ نے مظلوم کا ساتھ دینے کا حکم دیا تھا، اپنے موبائل کے پردے میں چھپے ہوئے ہیں۔
کاش ہم ان بارہ چہروں میں اپنی بےغیرتی کو پہچان سکتے۔ کاش ہم اپنی نسلوں کو بتا سکتے کہ غیرت، ایمان اور انسانیت تو ہماری، اہل اسلام کی شناخت تھی۔ لیکن آج ایمان والے دل ہی بجھ چکے ہیں۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم قوم، ملت، اور دین کے کھوکھلے نعرے چھوڑ کر خود کو اس آئینے میں دیکھیں، جو ہمیں گریٹا اور اس کے ساتھیوں نے دکھایا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ وہ غیر مسلم تھے… سوال یہ ہے کہ ہم کس منہ سے اپنے ایمان پر فخر کرتے ہیں، جب انسانیت کا سبق ہمیں دوسروں سے سیکھنا پڑ رہا ہے۔
*از: آفتاب اظہر صدیقی*
کشن گنج، بہار
12 / جون 2025 ء
بارہ غیر مسلموں کا ایک جہاز، نیلگوں سمندر میں لہروں سے کھیلتا ہوا، فلسطین کی مظلوم سرزمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ان کے چہروں پر خوشی، عزم اور امنگ تھی۔ کسی کے ہاتھ میں جھنڈا، کسی کے ہاتھ میں محبت کی علامت اور دلوں میں انسانیت۔ یہ کوئی عام سفر نہیں تھا، یہ ضمیر کا بیدار قافلہ تھا۔
اور ہم…؟ دو ارب مسلمان۔ ہماری تعداد کا شور تو بہت ہے، مگر کردار کا سکوت قبرستان جیسا۔ ان بارہ غیر مسلموں نے آج ہمیں آئینہ دکھا دیا۔ ان کا جہاز، ہمارا مکروفریب۔ ان کی ہمت، ہماری بے حسی۔ ان کا سفر، ہمارا حضر۔ ان کا عزم، ہماری غلامی۔ وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، ہم صرف تقریروں کے پہلوان بنے رہے۔ وہ سمندروں میں اتر کر ظالم کو للکار رہے ہیں، ہم اسٹیج پر زبان کے جوہر دکھا کر تالیاں بٹور رہے ہیں۔
فلسطین جل رہا ہے، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، مائیں کفن میں لپٹ رہی ہیں، اور ہم؟ ہم کانفرنسوں، ریزولوشنوں، اور سوشل میڈیا کے لایکس میں گم ہیں۔
ادھر ایک کمسن لڑکی، گریٹا تھنبرگ، ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہے۔ اور ادھر ہم، جن کے نبیؐ نے مظلوم کا ساتھ دینے کا حکم دیا تھا، اپنے موبائل کے پردے میں چھپے ہوئے ہیں۔
کاش ہم ان بارہ چہروں میں اپنی بےغیرتی کو پہچان سکتے۔ کاش ہم اپنی نسلوں کو بتا سکتے کہ غیرت، ایمان اور انسانیت تو ہماری، اہل اسلام کی شناخت تھی۔ لیکن آج ایمان والے دل ہی بجھ چکے ہیں۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم قوم، ملت، اور دین کے کھوکھلے نعرے چھوڑ کر خود کو اس آئینے میں دیکھیں، جو ہمیں گریٹا اور اس کے ساتھیوں نے دکھایا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ وہ غیر مسلم تھے… سوال یہ ہے کہ ہم کس منہ سے اپنے ایمان پر فخر کرتے ہیں، جب انسانیت کا سبق ہمیں دوسروں سے سیکھنا پڑ رہا ہے۔
*از: آفتاب اظہر صدیقی*
کشن گنج، بہار
12 / جون 2025 ء
0 تبصرے