Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

*گودی میڈیا کا المیہ اور اردو صحافت*



*@مختصر_کالم*


ہندوستانی میڈیا، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا، آج گودی میڈیا کے طور پر بدنام ہو چکا ہے۔ یہ میڈیا وہ ہے جو حکومت وقت کے گُن گانے میں مصروف ہے اور عوامی مسائل کو پس پشت ڈال چکا ہے۔ اس صورت حال پر ہمیں گودی میڈیا کو کوسنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ سیکڑوں ملی تنظیمیں، ہزاروں مدارس، اور درجنوں اردو صحافتی ادارے ہونے کے باوجود اردو زبان کا میڈیا الیکٹرانک پلیٹ فارم پر تقریباً ناپید ہے۔  


یہ حقیقت افسوسناک ہے کہ اردو زبان میں ایک مضبوط، خود مختار، اور معیاری الیکٹرانک چینل کا قیام اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔ جو چند چینلز اردو کے نام پر چل رہے ہیں، وہ یا تو ہندی اور انگریزی میڈیا کے ماتحت ہیں یا پھر محدود وسائل کے ساتھ مقامی سطح پر اپنی شناخت بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ قومی سطح پر ان کا کوئی اثر نہیں، اور ان کے پاس وہ وسائل بھی نہیں جن کی بدولت وہ حکومت یا بڑی میڈیا تنظیموں کے پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دے سکیں۔  


مسئلہ صرف وسائل کی کمی کا نہیں بلکہ ملی تنظیموں اور مدارس کی ترجیحات کا بھی ہے۔ ہمارے مدارس اور تنظیمیں تعلیمی اور فلاحی کاموں پر توجہ دیتی ہیں، جو یقیناً ضروری ہیں، لیکن جدید میڈیا کی طاقت کو سمجھنے اور اس میں سرمایہ کاری کرنے سے قاصر ہیں۔ آج کے دور میں میڈیا عوام کی ذہن سازی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر اردو میڈیا کو اس میدان میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اسے جدید ٹیکنالوجی، پیشہ ورانہ مہارت، اور صحافتی اصولوں کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔  


اردو چینلز کا نہ ہونا نہ صرف اردو صحافت؛ بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی شعور کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر اردو زبان اور مسلمانوں کے مسائل کو قومی اور عالمی سطح پر پیش کرنا ہے تو ہمیں ایک مضبوط، خود مختار اور معیاری اردو چینل کی ضرورت ہے جو حقائق پر مبنی صحافت کرے اور کسی بھی دباؤ کے بغیر عوام کے مسائل کو اجاگر کرے۔ اس کے لیے وسائل جمع کرنے، صحافتی تربیت دینے، اور تنظیمی عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ 


*از: آفتاب اظہر صدیقی*

کشن گنج، بہار


26 دسمبر 2024ء


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے