Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

*دارالعلوم بہادرگنج کے طالب علم نے پورے بہار کا نام روشن کیا*



                                            🖊ظفر امام

___________________________________

    یہ مژدۂ جانفزا اور پُرمسرت خبر لکھتے ہوئے دل خوشی سے اچھل رہا ہے اور آنکھیں اشک آلود ہیں کہ سیمانچل کے مرکزی اور نامور ادارہ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم بہادرگنج کشن گنج بہار کے ایک ہونہار، نہایت ہی خلیق، متواضع اور با ادب طالب علم *عزیزم حافظ محمود ابراہیم بن حضرت مولانا الیاس صاحب* منوری مدظلہ العالی(سکونت بارسوئی) سلمہ (عربی اول) نے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے زیرِ اہتمام دسویں کل ہند مسابقة القرآن الکریم کی فرعِ ثالث (حفظ حدیث) میں دوم پوزیشن سے کامیابی حاصل کر کے اپنا،اپنے والدین،ادارہ،انتظامیہ اور جملہ اساتذہ سمیت پورے بہار کا سر فخر سے اونچا کردیا (اس لئے کہ بہار کے کسی اور طالب علم کی پوزیشن نہیں آئی) اس حسنِ کاکردگی پر دارالعلوم بہادرگنج کی انتظامیہ،جملہ  اساتذہ اور کارکنان آں عزیز مکرم کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکبادی کا گلدستہ پیش کرتے ہیں اور مستقبل میں ان کی نیک نامیوں کے لئے دعا گو ہیں۔

    یوں تو اس ہونہار طالبِ علم کی خداداد ذہانت،طبعی محنت اور کسبی لگن کی بنیاد پر ہم سب کو یہ امیدتھی کہ ان شاء اللہ اس کی کوئی نہ کوئی پوزیشن ضرور آئے گی مگر ملکی سطح کے اس مسابقہ میں دوم پوزیشن کا تمغہ اپنے نام کرنا یہ ہمارے لئے اس لئے تعجب خیز ہے کہ یہ بچہ ابھی عربی اول کا طالبِ علم ہے،جہاں ابھی اس کی شرح مأة عامل بھی پوری نہیں ہوئی ہے اور ابھی وہ میزان کے بعد پنج گنج کی ابتدائی تعلیلوں میں ہی ہے،دوسری طرف اگر آپ فتن و ملاحم پر مشتمل منتخب چہل احادیث کے طویل متون و تراجم،ان کے فوائد و لغوی و صرفی تحقیق اور تعارفِ راوی پر مشتمل تقریبا 250 صفحات کی کتاب کو دیکھیں گے تو آپ کی عقل حیران ہوئے بنا نہیں رہ پائے گی کہ ایک عربی اول کا طالبِ علم بھلا کیسے اور کیونکر اس کے حرف حرف کو اپنے سینے میں سمو سکتا ہے؟اس سے آپ اس بچے کی کمالِ ذہانت اور اس کے محنتی ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں،یقینا اس بچے نے درسیات کے ساتھ اس کے پیچھے کافی محنتیں کی تھیں،جب سے مسابقہ کے لئے اسے نامزد کیا گیا تھا تب سے ہی اس کے نظام الاوقات میں تبدیلی آچکی تھی،جس وقت کو وہ  پہلے تفریح اور چہل قدمی میں لگایا کرتا تھا اس کے بعد وہ اسے حفظ حدیث میں صرف کرنے لگا،راتوں کو جب پورے مدرسے میں سناٹا چھا جاتا اور پورا مدرسہ شہرِ خموشاں کی تصویر بن جاتا تو یہ بچہ وضو کرکے آتا دورکعت نماز ادا کرتا اور ٹارچ جلا کر حدیثیں یاد کرنے بیٹھ جاتا،اس کی انہی محنتوں کا ثمرہ ہے کہ اس نے بہت تھوڑے سے وقت میں اس پوری کتاب کو تعوذ اور تسمیہ کی طرح اتنا ازبر کر لیا تھا کہ کمپیوٹر کی طرح اس کی زبان چلتی تھی، اس موقع پر ہم اس کے اس استاذ یعنی حضرت مفتی منور حسین صاحب القاسمی حفظہ اللہ کو بھی قطعی فراموش نہیں کر سکتے جنہوں نے مکمل انہماک اور یکجہتی کے ساتھ قدم قدم پر اس کا تعاون کیا اور چنندہ نکات اور طرز و ادا کے نشیب و فراز سے اسے آگہی بخشی،آج انہیں بھی اپنی محنت کا نقد ثمرہ مل گیا اور یقینا وہ بھی خدا کے سامنے سر بسجود ہوں گے کہ اس نے ان کی محنت کو رائیگاں جانے نہیں دیا،ساتھ ہی عزیزی محمود کے ساتھ مخدوم گرامی حضرت ناظم عمومی صاحب کی دعائیں اور آہِ سحر گاہیاں بھی تھیں کہ وہ آپ کا پسندیدہ بچہ تھا۔

    عزیزی محمود واقعی اسم بامسمی ہے،اس کا ہر کام محمود اور اس کا ہر کاج مقبول ہے،متواضع اور با ادب اتنا کہ دیکھ کر ہی بچے پر پیار آجائے،خدمت گزار ایسا کہ ہر وقت ادارہ کے ناظم عمومی بقیة السلف اور متفق علیہ بزرگ ہستی حضرت اقدس الحاج مولانا انوار عالم صاحب مدظلہ العالی کے ساتھ ایک سائے کی طرح لگا رہے،اس کی انہی بےلوث خدمات نے اس کو حضرت کا منظور نظر بنا دیا ہے،اگر حضرت مدرسے میں ہوں اور سامنے محمود نہ ہو تو حضرت کو چین کہاں ملے،حضرت اسے ”میرا محمود کہاں ہے؟“ کہہ کر پکارا کرتے ہیں،پڑھنے میں اتنا ذہین کہ مقناطیس کی طرح باتیں اس کے ذہن میں چپک جایا کرتی ہیں،ایک بار سے دو بار بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    الغرض آج انعامات کی تقسیم کے وقت جب میں لائیو دیکھ رہا تھا اور عزیزی محمود کا نام دوم پوزیشن کے ساتھ پکارا گیا تو اس وقت میری کیا کیفیت تھی اس کو میں سپرد قلم کرنے یکسر عاجز و قاصر ہوں،بس یوں سمجھ لیجیے مسرت و شادمانی کے پھول میرے گلشنِ دل پر لہلہا اٹھے تھے جن کی پنکھڑیوں پر میں تتلیوں کی مانند عالمِ تصور میں اڑا پھرتا تھا،آنکھوں میں اشکوں کی نمی اتر آئی تھی اور میری نگاہوں کے سامنے چودہ سال پیچھے یعنی 2009؁ء کا وہ منظر رقص کر گیا تھا جب مجھے بھی جامعہ حسینیہ مدنی نگر کشن گنج سے اپنے دوم عربی کے سال میں کل ہند مسابقہ کی فرع اول میں شرکت کرنے کا خداوند تعالی نے موقع فراہم کیا تھا مگر سوئے نصیب سے میرا خواب ادھورا ہی رہ گیا تھا، آج جب اپنے شاگرد (الحمدللہ مجھے اس بچے کو نحومیر اور شرح مأة پڑھانے کا شرف حاصل ہے) کو دوم پوزیشن سے کامیاب ہوتے دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے اس نے میرے اکل کوا کی پتھریلی زمین پر منتشر ادھورے خواب کو شرمندۂ تعبیر کردیا ہو۔

    انعام کے طور پر اس بچے کو جامعہ کی طرف سے 35000 ہزار روپے نقد،امتیازی سند اور بھی کئی ساری چیزیں ملی ہیں،ان کے علاوہ ایک صاحب خیر کی طرف سے عمرے کا پروانہ بھی عطا ہوا ہے،اگر بات صرف پیسوں کی ہوتی تو میں بالکل انعامات کا تذکرہ نہ کرتا کہ میرے لئے انعامات ثانوی درجے کی چیز ہیں،مگر بات یہاں عمرے کی ہے کہ حفظ حدیث اور بزرگوں کی خدمت کی برکت سے عزیز مکرم کو اس چھوٹی سی عمر میں عمرہ کرنے کا موقع مل گیا،اس سے بڑی سعادت کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔

   ایک بار پھر جملہ اساتذہ اور کارکنان عزیز مکرم کو تہنیت نامہ پیش کرتے ہیں اور اس کے نیک مستقبل کے لئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا گو ہیں کہ قدم قدم پر کامیابیاں اس کے ہمرکاب ہوں ساتھ ہی ہم ادارہ کے حق میں بھی دست بدعا ہیں کہ اللہ پاک ادارہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقیات کی دولت سے سرفراز کرے۔ آمین


                        ظفر امام کھجورباڑی

                        دارالعلوم بہادرگنج

                     24/دسمبر 2023؁ء

      

     

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے