Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ٹیپو (2) ،عظیم مسلم مجاہدین آزادی جنہیں بھلادیا گیا



 *تحریر  : مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی* 


10/8/2022

قسط (4) 


ایک سو نوے سالہ انگریزی دور اقتدار میں کروڑوں  مسلمانوں نے وطن عزیز ہندوستان کی حفاظت کے لیے جان و مال کی قربانیاں دیں ، ان میں حکام بھی تھے ، علماء اور ادباء بھی تھے ، اور عام مسلمان بھی ، ان میں سنی بھی تھے اور شیعہ بھی ، بڑے بڑے تہجد گذار اور پیر و مرشد بھی تھے ، اور بے نمازی مسلمان بھی ، یہاں تک کہ اپنے جسم کا کاروبار کرنے والی مسلم طوائفوں  نے بھی وطن  عزیز کے لیے قربانیاں دی ہیں ، کان پور کی مسلم طوائف عزیزن بائی نے سترہ سو سنتاون کی جنگ آزادی میں عظیم قربانیاں دی تھیں ، 

میں نے چند سال قبل " مسلم مجاہدین آزادی " کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی ، اس میں انیس مسلم مجاہدین آزادی کا ذکر ہے  ، ان میں سے اکثر چوٹی کے بڑے علماء ہیں ، 

ہم ایک بند لکھیں گے اور اس بند میں مذکور مجاہدین آزادی کا مختصر یا مفصل تذکرہ کریں گے ، 

ہم نے اس مضمون کی پہلی قسط میں نواب بنگال نواب سراج الدولہ کا تذکرہ کیا تھا ،

 دوسری قسط   میں والی میسور حیدر علی کا تذکرہ ہم نے کیا تھا 

تیسری قسط میں میسور کے حکمراں  اور سلطان حیدر علی کے بڑے صاحب زادے سلطان میسور ٹیپو سلطان کا تذکرہ کیا تھا مگر اس میں ان کا تذکرہ مکمل نہیں ہوا تھا ہم اس چوتھی قسط میں بھی ٹیپو سلطان کا تذکرہ کریں گے ،


*کیا یاد ہیں تم کو سراج الدولہ، یا ان کی شہادت بھول گئے؟* 

 *کیا حیدر و ٹیپو یاد بھی ہیں ،یا ان کی شجاعت بھول گئے؟* 


        *اے اہل وطن کچھ بولو تو* 

      *اے اہل چمن کچھ سوچو تو* 


 *ٹیپو سلطان کا خط حیدرآباد کے حکمراں   نظام الملک کے نام* 

میر نظام علی خان کا داماد نواب مہا بت جنگ کا دیوان اسد علی خان صلح کا پیغام لے کر ٹیپو سلطان کے پاس پہنچتا ہے تو ٹیپو سلطان اس کی واپسی پر اپنے ایلچی محمد غیاث کو نظام الملک کے نام ایک خط لکھ کر روانہ کرتے ہیں۔


جناب عالی!

آداب میں ٹیپو سلطان بن حیدر علی خان بہادر آپ کو یہ بتا دینا بہتر اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ملک کا ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اپنے ملک کو اپنی ماں کا درجہ دیتا ہوں، اور میری فوج اور علاقے کے ہر محبِ وطن کو وطن پر قربان کر کے بھی اگر ملک اور قوم کو بچا سکا تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔


اصل بات تو یہ ہے کہ میرے ملک میں رہنے والے ہر فرد کو ملک کا خادم ہونا چاہیے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک کے باشندوں کو تباہ کرنے، ملک کو کھوکھلا کرنے اور اس کی معاشی اور ثقافتی حالات کو تباہ و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔


معلوم ہو کہ آپ دونوں کی ملی بھگت کی وجہ سے میرا ملک اور وطن پامال اور میری رعایا کو شکستہ حال کیا جا رہا ہے۔ میں نے آپ کو رازداری میں یہ بھی سمجھا یا تھا کہ اگر آپ اور میں دونوں مل کر ہم خیال بن جاتے ہیں تو مرہٹوں کی کیا مجال کہ وہ ہماری ریاستوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔


یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ اپنی عیاری اور چالاکی کی وجہ سے انگریز آپ کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے اور آپ کے دل میں کدورت بھرتے آ رہے ہیں۔ اور تعجب ہے کہ آپ اس بات کوسمجھ نہیں رہے ہیں۔وہ آپ کو اکسا رہے ہیں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف فوج کشی کرتے رہیں۔


اگر بات آپ کو سمجھ میں آ جا تی ہے تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ آپ کی اور میری دوستی امن اور آشتی میں بدل سکتی ہے تو اس ایک بات پر کہ آپ کے خاندان کے لڑکے، بھتیجے، بیٹوں کومیرے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ اور میرے بھتیجے، بیٹوں کو آپ کے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ بیاہا جائے تاکہ دونوں ریاستوں میں دوستی بڑھ جائے۔ فقط ۔ ٹیپو سلطان،

مردِ حریت سلطان ٹیپو، ڈاکٹر وائی، یس، خان ، بنگلور، صفحہ: 176 ناشر: کرناٹک اردو اکادمی بنگلور


 *نظام الملک کون تھے* 

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی جو خود مختار ریاستيں بر صغیر میں قائم ہوئیں ان میں سب سے بڑی اور طاقتور ریاست حیدر آباد دکن کی مملکت آصفیہ تھی۔ اس مملکت کے بانی نظام الملک میر قمر الدین  آصف جاہ  اول تھے، چنانچہ اسی نسبت سے اس ریاست کو مملکت آصفیہ یا آصف جاہی مملکت کہا جاتا ہے۔ آصف جاہی مملکت کے حکمرانوں نے بادشاہت کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ وہ نظام کہلاتے تھے اور جب تک آزاد رہے مغل بادشاہ کی بالادستی تسلیم کرتے رہے، اسی کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری رکھا ،



 *ٹیپو سلطان کے زمانے میں حیدرآباد کے نظام* 

ٹیپو سلطان کے زمانے میں حیدرآباد کے نظام ، نظام علی خاں تھے ، ان کی حیدرآباد ریاست پر حکومت 1762سے  1803 تک تھی ، ٹیپو سلطان نے مذکورہ خط حیدر آباد کے نظام ، نظام علی خاں کو ہی لکھا تھا ، اگر نظام علی خاں انگریزوں کا ساتھ نہ دیتے تو ہندوستان میں انگریزوں کے پیر نہ جمتے ،


 

چوتھی اینگلو میسور جنگ 

“میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غداروں میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگا پٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا۔


 *سرنگا پٹم میں 45 ہزار انگریز فوجیوں کا حملہ* 

14 فروری سنہ 1799 کو جنرل جارج ہیرس کی رہنمائی میں 21 ہزار فوجیوں نے ویلور سے میسور کی جانب کوچ کیا۔ 20 مارچ کو امبر کے نزدیک 16 ہزار فوجیوں کا ایک دستہ ان کے ساتھ آ ملا۔


اس میں کنور کے قریب جنرل سٹوئرٹ کی کمان میں 6420 فوجیوں کا دستہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ ان سبھی نے مل کر ٹیپو سلطان کے سرنگا پٹم کے قلعے پر چڑھائی کر دی تھی۔


مشہور تاریخ دان جیمس مل اپنی کتاب ’دا ہسٹری آف برٹش انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ وہی ٹیپو سلطان تھے جن کی آدھی سلطنت پر چھ برس قبل انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ ان کے پاس جو زمین بچی تھی اس سے انھیں سالانہ ایک کروڑ روپے سے تھوڑی زیادہ آمدنی ہوتی تھی، جبکہ اس وقت انڈیا میں انگریزوں کو ملنے والا کُل زرِ مبادلہ نوے لاکھ پاوٴنڈ یعنی نو کروڑ روپے تھا۔‘


آہستہ آہستہ انھوں نے سرنگا پٹم کے قلعے کو گھیر لیا اور تین مئی 1799 کو توپوں سے حملہ کر کے اس کی صدر دیوار میں سوراخ کر دیا۔‘



ایک اور تاریخ دان لشنگٹن اپنی کتاب ’لائف آف ہیرِس‘ میں لکھتے ہیں ’حالانکہ سوراخ زیادہ بڑا نہیں تھا، تو بھی جارج ہیرِس نے اپنے فوجیوں کو اس کے ذریعہ قلعے کے اندر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اصل میں ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘


’ان کی فوج بھوکی تھی۔ بعد میں ہیرس نے کیپٹن میلکم کے سامنے خود قبول کیا کہ میرے خیمے پر تعینات انگریز گارڈ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ اگر اسے دھکا دیا جاتا تو وہ نیچے گر جاتا۔‘


تین مئی کی رات تقریباً پانچ ہزار فوجی جن میں قریب تین ہزار انگریز تھے خندقوں میں چھپ گئے تاکہ ٹیپو کی فوج کو ان کی سرگرمی کا پتا نہ لگے۔ جیسے ہی حملے کا وقت نزدیک آیا ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والے شخص (وزیر جنگ) میر صادق نے فوجیوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے بلایا۔


ایک اور تاریخ دان میر حسین علی خان کرمانی نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ میں کرنل مارک ولکس کے حوالے سے لکھا ہے ’ٹیپو کے ایک کمانڈر ندیم نے تنخواہ کا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا۔ اس لیے دیوار کے سوراخ کے پاس تعینات فوجی بھی اس کے پیچھے چل دیے۔ اسی وقت انگریزوں نے پیچھے سے حملہ بول دیا۔‘


اس درمیان ٹیپو کے ایک بہت وفادار کمانڈر سعید غفار انگریزوں کی توپ کے گولے سے ہلاک ہو گئے۔


کرمانی لکھتے ہیں کہ جیسے ہی غفار کی موت ہوئی، قلعے سے غدار فوجیوں نے انگریزوں کی جانب سفید رومال ہلانے شروع کر دیے۔


یہ پہلے سے طے تھا کہ جب ایسا کیا جائے گا تو انگریز فوج قلعے پر حملہ بول دے گی۔ جیسے ہی سگنل ملا انگریز فوج نے دریا کے کنارے کی جانب بڑھنا شروع کر دیا جو وہاں سے صرف سو گز کے فاصلے پر تھا۔


دریا بھی محض 280 گز چوڑا تھا اور کہیں ٹخنے تک پانی تھا تو کہیں کمر تک۔


میجر الیگزانڈر ایلن اپنی کتاب ’این اکاوٴنٹ آف دا کیمپین ان میسور‘ میں لکھتے ہیں ’حالانکہ انگریزوں کی آگے بڑھتی ہوئے فوج کو قلعے سے بڑی آسانی سے توپوں کا ہدف بنایا جا سکتا تھا، پھر بھی خندقوں سے نکل کر انگریز فوجی محض سات منٹ کے اندر قلعے کی دیوار کے سوراخ سے داخل ہو کر برطانوی جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔‘

ٹیپو- 3 سلطان خود جنگ میں کودے

سوراخ پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد برطانوی فوج دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

بائیں جانب بڑھنے والی فوج کو ٹیپو سلطان کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیپو کی فوج کے ساتھ دست بدست مقابلے میں اس دستے کی رہنمائی کرنے والے کرنل ڈنلپ کی کلائی پر تلوار سے گہرا زخم لگا۔ اس کے بعد کالم کے دستے کو آگے بڑھنے سے روکنے میں ٹیپو کے تلوار سے گہرا زخم لگا۔ اس کے بعد کالم کے دستے کو آگے بڑھنے سے روکنے میں ٹیپو کے فوجی کامیاب رہے۔

ٹیپو سلطان اپنی فوج کی ہمت بندھانے خود جنگ میں شامل ہو چکے تھے۔


ڈنلپ کی جگہ لیفٹننٹ فارکیوہار نے لی۔ لیکن وہ بھی جلد ہلاک ہو گئے۔ چار مئی کی صبح ٹیپو نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے کی دیوار میں ہونے والے سوراخ کا معائنہ کیا اور اس کی مرمت کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ غسل کے لیے چلے گئے۔


کرمانی لکھتے ہیں کہ ’صبح ہی ان کے نجومی نے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ دن ان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس لیے شام تک انھیں اپنی فوج کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔‘

غسل کے بعد ٹیپو نے غریبوں میں پیسے بانٹے۔


چیناپٹنا کے ایک پجاری کو انھوں نے ایک ہاتھی، تِل کی ایک بوری اور دو سو روپے دیے۔ دیگر براہمنوں کو ٹیپو نے کالی بکری، کالے کپڑوں سے بنی ایک پوشاک اور نوے روپے کے علاوہ تیل سے بھرا ایک برتن بھی دیا۔ اس سے قبل انھوں نے لوہے کے برتن میں رکھے ہوئے تیل میں اپنا سایہ دیکھا۔ اُن کے نجومی نے بتایا تھا کہ ایسا کرنے سے ان پر آنے والی مصیبت ٹل جائے گی۔


 *کھانا چھوڑ کر میدان جنگ میں کود پڑے* 

انھوں نے محل میں واپس لوٹ کر رات کا کھانا کھایا۔

کھانا شروع ہی کیا تھا کہ انھیں اپنے کمانڈر سعید غفار کے ہلاکت سے متعلق خبر ملی۔ غفار قلعے کے مغربی سرے کی حفاظت کے لیے تعینات فوج کی قیادت کر رہے تھے۔


لیفٹیننٹ کرنل الیکزانڈر بیٹسن اپنی کتاب ’اے ویو آف دا اوریجن اینڈ کنڈکٹ آف دا وار ود ٹیپو سلطان‘ میں لکھتے ہیں ’ٹیپو یہ خبر سنتے ہی کھانا چھوڑ کر اٹھ گئے۔‘


انھوں نے ہاتھ دھوئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر اس جگہ کی جانب نکل پڑے جہاں دیوار میں سوراخ ہوا تھا۔ لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی انگریزوں نے وہاں اپنا جھنڈا لہرا دیا تھا اور قلعے کے دوسرے علاقوں کی جانب بڑھنا شروع ہو چکے تھے۔


 *ٹیپو کو گولی لگی اور گھوڑا بھی مارا گیا* 

بیٹسن آگے لکھتے ہیں ’اس جنگ میں ٹیپو نے زیادہ تر لڑائی عام فوجیوں کی طرح پیدل ہی لڑی۔ لیکن جب ان کے فوجیوں کی ہمت ٹوٹنے لگی تو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی ہمت بڑھانے کی کوشش کرنے لگے۔‘


مارک ولکس لکھتے ہیں کہ ’اگر ٹیپو چاہتے تو جنگ کے میدان سے بھاگ سکتے تھے۔ اس وقت قلعے کے کمانڈر میر ندیم قلعے کے گیٹ کی چھت پر کھڑے تھے لیکن انھوں نے اپنے سلطان کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔‘

ٹیپو کو گولی لگی اور گھوڑا بھی مارا گیا

بیٹسن آگے لکھتے ہیں ’اس جنگ میں ٹیپو نے زیادہ تر لڑائی عام فوجیوں کی طرح پیدل ہی لڑی۔ لیکن جب ان کے فوجیوں کی ہمت ٹوٹنے لگی تو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی ہمت بڑھانے کی کوشش کرنے لگے۔‘


مارک ولکس لکھتے ہیں کہ ’اگر ٹیپو چاہتے تو جنگ کے میدان سے بھاگ سکتے تھے۔ اس وقت قلعے کے کمانڈر میر ندیم قلعے کے گیٹ کی چھت پر کھڑے تھے لیکن انھوں نے اپنے سلطان کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔‘


________________________


اگلی قسط میں ٹیپو سلطان کی شہادت اور ان کے آخری لمحات اور جنازے کے مناظر کا بیان ہوگا اور بھی بہت کچھ ہوگا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے