مختصر کالم
از: آفتاب اظہرؔ صدیقی
بھارت میں قانونی اعتبار سے اب تک لڑکوں کی شادی کے لیے 21/ برس کا ہونا شرط ہے اور لڑکیوں کی شادی کے لیے 18/ برس کی قید رکھی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 1978ء سے پہلے لڑکیوں کی شادی کی عمر 15 برس تھی، لیکن 1978 میں قانونی طور پر لڑکیوں کی شادی کی عمر 15 برس سے بڑھاکر 18 برس کردی گئی تھی۔
اب 2021 میں مرکزی حکومت کے کیبنٹ سے منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں یہ بل پیش کیا گیا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر بھی 18 برس سے بڑھا کر 21 برس کردی جائے، بل پیش ہوا تو ہنگامہ بھی ہوا، اپوزیشن پارٹیوں نے اس بل کی پر زور مخالفت کی جن میں کانگریس، ٹی ایم سی، ایم آئی ایم، این سی پی، ڈی ایم کے، بی جے ڈی اور شیو سینا کے نام شامل ہیں۔
ان میں سے کئی نے بل لانے کے طریقے پر اعتراض جتایا تو کئی نے اس بل کو سرے سے غلط قرار دیتے ہوئے واپس لینے کی مانگ کی۔ بہر حال یہ بل ابھی پاس نہیں ہوا ہے، بلکہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے؛ لیکن امید ہے کہ بھاجپا اگر چاہے گی تو چار چھ مہینوں میں اس بل کو پاس کرواکر قانونی شکل دے دے گی۔
سوال یہ ہے کہ جب لڑکیوں کے تمام حقوق 18 برس کی عمر میں دیے جارہے ہیں اور 18 برس کی عمر میں اسے ووٹ دینے، نوکری کرنے اور خود سے فیصلے لینے کا اختیار ہے تو شادی کرنے کی آزادی کیوں نہیں؟ حکومت ہر دو چار مہینوں کے بعد اس طرح کے نئے نئے بِل اس لیے لے کر آتی ہے کہ اس بل پر بحث شروع ہوجائے اور سرکار کی ناکامیوں پر سوال اٹھنے بند ہوجائیں، اس لیے کہ بھاجپا کے دور حکومت میں ملک نقصانات سے دوچار ہے، ملک کو اس حکومت سے ایک فیصد فائدہ نہیں ہوا، ترقی کی جگہ تنزل ہے، وکاس کے بجائے وناش ہوتا جارہا ہے۔
شادی اور نکاح کی صحیح عمر اگر طے کرنی ہے تو اسلام کے مطابق قانون بنایا جائے کہ لڑکا ہو یا لڑکی، بالغ ہونے کے بعد شادی کا اختیار ہو۔ اس سے معاشرہ گناہوں سے محفوظ رہے گا، خوش حال رہے گا اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دماغی تناؤ، جنسی کمزوری اور مایوسی کے شکار نہیں ہوں گے، جبکہ شادی کی عمر میں اضافہ بہت سے نقصانات کا ذریعہ ہے، اس سے جہاں نوجوان نسل کے دماغ و صحت پر اثر پڑے گا، وہیں سماج میں زنا عام سے عام تر ہوتا جائے گا۔
______________
31/ دسمبر 2021
0 تبصرے