Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

بہار 2020 اسمبلی انتخابات : گھبرانے کی بات نہیں؟



ایک منٹ کا کالم

از: آفتاب اظہر صدیقی

  بہار میں اسمبلی انتخابات 2020 کی تیاریاں زوروں پر ہے، درجنوں اضلاع میں پرچہء نامزدگی کی تاریخ بھی طے ہوگئی ہے، یہ انتخابات 28 اکتوبر 2020 سے شروع ہوکر 7 نومبر 2020 کو اختتام کو پہنچیں گے اور 10 تاریخ تک ووٹوں کی گنتی کا عمل بھی مکمل ہوجائے گا۔ بہار اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے والی اہم پارٹیوں نے اتحاد کے ساتھ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایک طرف این ڈی اے اتحاد میں بھاجپا اور جے ڈی یو سرکردہ پارٹیاں ہیں ، دوسری طرف مہاگٹھ بندھن کے نام پر کانگریس اور آر جے ڈی کا اتحادقابل ذکر ہے، اصل مقابلہ تو ان ہی دونوں اتحادیوں کے درمیان ہوناہے؛ لیکن درمیان میں کچھ اور پارٹیاں بھی تیسرے محاذ کے طور پر اس الیکشن کے مقابلے کو مزید دلچسپ بناسکتی ہیں، راجیش رنجن عرف پپو یادو نے اپنی جن ادھیکار پارٹی کے ساتھ کئی چھوٹی پارٹیوں کو شامل کرلیا ہے؛ جن میں چندر شیکھر آزاد کی آزاد پارٹی، بہوجن مکتی پارٹی اور ایس ڈی پی آئی شامل ہیں۔ پپو یادو کا کہنا ہے کہ راشٹریہ لوجک سمتا پارٹی کے صدر ”اپیندر کشواہا“ سے بھی ان کی بات چل رہی ہے۔ہوسکتا ہے کہ پپو یادو کا یہ اتحاد بہار کی تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے یا کم از کم 75 فیصد سیٹوں پر ان کے امیدوار نظر آئیں۔ اس کے علاوہ ایم آئی ایم نے بھی پچاس سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا موڈ بنارکھا ہے، اس کے علاوہ یشونت سنہا بھی الگ محاذ کی بات کر رہے ہیں، اور پھرراشٹریہ علماءکونسل، مائینوریٹی فرنٹ اور اس جیسی دسیوں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی پانچ پانچ دس دس بیس بیس سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار سکتی ہیں۔ آزاد امیدواروں کی بات نہ کریں تب بھی ان پارٹیوں کے میدان میں ہونے سے نقصان مہاگٹھ بندھن کا ہی ہونا ہے۔ کانگریس اور آر جے ڈی کو چاہیے تھا کہ شروع میں ہی یشونت سنہا اور پپو یادو اور ان جیسی سبھی سیاسی جماعتوں کو پانچ دس سیٹوں کی حصہ داری کے ساتھ اپنے اتحاد میں شامل کر لیتی؛ لیکن اس کا تو کانگریس کے ساتھ بھی اتحاد بنائے رکھنا مشکل معلوم ہورہا تھا اور کئی بار اتحاد ٹوٹتے ٹوٹتے بچا تو پھر اور پارٹیوں کو کیسے وہ اپنے ساتھ لے سکتی تھی! تاہم ابھی کی سیاسی ہوا اور فضا کو دیکھتے ہوئے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آر جے ڈی اور کانگریس حکومت بنانے کی پوزیشن میں بالکل نہیں ہے، تیجسوی یادو کا وزیر اعلیٰ بننے کا خواب مٹی میں ملتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ایسے میں سب سے زیادہ کام بگاڑنے والی پارٹی کون ہوگی یہ ایک بحث کا موضوع ہے، میرے حساب سے تیجسوی اگر ہار کا منھ دیکھے گا تو اپنے ہی قصور کی بناپر کہ اس نے چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد نہیں کیا، جہاں تک ایم آئی ایم کی بات ہے تو ایم آئی ایم اپنی تمام پچاس سیٹوں پر کام بگاڑنے میں اول پوژیشن حاصل کرے گی، پچاس میں سے تین سیٹوں پر بھی اگر ایم آئی ایم جیت حاصل کرلے تو یہ اس کے لیے بڑی بات ہوگی، بقیہ سیٹوں پر تو بس کسی کو جتانے اور کسی کو ہرانے کا کام کرے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے