از: مولانا آفتاب اظہر صدیقی
ڈائیریکٹر الہدایہ اسلامک اکیڈمی، چھترگاچھ، ضلع کشن گنج (بہار)
اسلام مکمل حیاتِ انسانی کو محیط ہے، یہی وہ مذہب ہے جس میں ہر فن و ہنر، ہر فعل و عمل اور ہر قول و قرار کے بارے میں درست اور صحیح رہنمائی کی گئی ہے، اسلام نے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ¿ راہ خالی نہیں چھوڑا جس میں شریعت کی راہنمائی کا چراغ روشن نہ کیا ہو۔ اللہ پاک کا بنایا ہوا نظام اور قانون ہی ابدالآباد تک کے لیے ساری انسانیت کے لیے قابل قبول اور لائق تسلیم ہے؛ ورنہ دنیا والے روز قانون بناتے ہیں، پھر اس میں سیکڑوں بار ترمیمات کرتے ہیں؛ لیکن اس قانون کی خامیاں دور نہیں ہوپاتیں، اس کا نقصان باقی ہی رہتا ہے۔ لہذا ساری انسانیت کو چاہیے کہ اسلامی قانون کو اپنائے تبھی جاکر دنیا سے برائیوں کا خاتمہ ہوپائے گا۔
بہر حال؛ انسانی زندگی میں ایک اہم چیز ہے انسان کی ”زبان“ آدمی اپنے مافی الضمیر کو تمام مخلوقات ارضی سے بہتر انداز میں اداکرتا ہے، اس لیے کہ انسانی نطق تمام حیوانی مخلوقات میں سب سے زیادہ حروف کی ادائیگی پر قادر ہے۔ حروف مل کر لفظ اور الفاظ مل کر جملے بنتے ہیں جن سے آدمی ایک دوسرے کی منشا و مراد کو سمجھتاہے۔ انسانوں کی زبانیں مختلف ہیں، لیکن ہر زبان کا مقصد معاشرت و معاملات کو سہل انداز میں جاری رکھنا ہے۔ ادب کے لحاظ سے زبان کی دو قسمیں ہیں، نثر اور شعر۔ نثر وہ بات جو سیدھے سادھے انداز میں برجستہ لکھی یا بولی جائے ۔ شعر وہ پابند کلام ہوتا ہے جس میں اوزان و ارکان اور بحر وغیرہ کی پابندیاں ہوتی ہیں۔ شعر میں دنیا کے کسی بھی مضمون کو ڈھالا جاسکتا ہے، بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جس میں عشق کی باتیں ہوں بس وہی شاعری ہے، ایسی ہی سوچ کی بنا پر اس طرح کے سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ”شاعری“ جائز بھی ہے یا نہیں؟ حالانکہ یہ بالکل واضح مسئلہ ہے کہ شاعری بھی انسان کا مافی الضمیرہے، بس اگر وہ نثر کے بجائے کوئی بات شعر میں کہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؛ بلکہ ادب کے لحاظ سے آدمی نثر کے بجائے شعر میں کوئی بات سننے کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ سوال مذکورہ کا ایک جملے میں اگر جواب دیا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ ”بات اچھی ہو تو نثر اور شعر دونوں میں کہنا جائز ہے اور بات بری ہو تو دونوں میں ناجائز“ اسی کو آقائے نامدار محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے جو آگے آئے گی۔
شعرا کی شاعری میں بے بنیاد مضامین، ہفوات باتوں اور بے مقصد کلاموں کی کثرت اس لیے بھی ہوتی ہے کہ اکثر و بیشتر شعراءبے دین ہوتے ہیں، انہیں اسلام اور شریعت کا دور دور تک علم و ادراک نہیں ہوتا؛ چنانچہ مقولہ مشہور ہے کہ ”برتن سے وہی ٹپکے گا جو اس میں ہوگا“ اب ایک شاعر جس کے ذہن میں نہ ماضی کے اسلامی کارنامے ہیں، نہ فکرِ فرداہے، نہ غمِ حیات ہے، نہ مرنے کی جستجو تو وہ شاعری کرے گا تو کیا شاعری کرے گا، جنگلوں میں بھٹکے گا، وادیوں میں پھرے گا، حسینوں کا حسن، گلابی ہونٹ، ناگنی کمر، ہرنی چال اور ریشمی زلفیں ہی اس کی شاعری کے اجزائے ترکیبی ہوں گے اور اگر بالقصد کبھی دینی شاعری بھی کرے گا تو اس میں وہ باتیں ہوں گی جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں شعراءنعت و منقبت کہنے میں شرکیہ اشعار کہہ جاتے ہیں، اس لیے کہ انہیں حدودِ شریعت کا علم نہیں ہوتا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بہت سے نامور شعراءتھے، کفار کی طرف سے جب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شاعری ہوتی تو آپ ﷺ اپنے کسی شاعر صحابی کو اس کا جواب دینے کا حکم فرماتے؛ چنانچہ حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ، کعب بن مالک جیسے جلیل القدر اصحابِ رسول کی شاعری کے چرچے حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔
شاعری کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں پاکستان کے ایک عالم دین کے فتوے کی تلخیص ملاحظہ فرمائیں:
سوال: السلام علیکم! مفتی صاحب! مختصراً پوچھنا ہے کہ شاعری کے متعلق کیا حکم ہے؟ کس قسم کی شاعری جائز ہے اور ناجائز؟ کیا کنواروں اور شادی شدہ مرد و عورت کے لئے کسی قسم کے الگ الگ احکام ہیں شاعری سے متعلق؟
جواب: اللہ تبارک وتعالیٰ نے اچھے اور برے کلام کے اعتبار سے شعراءکی دو اقسام بیان کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
(سورة الشعراءآیت نمبر 224سے 227تک کا ترجمہ)
اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ (شعراء) ہر وادی (خیال) میں (یونہی) سرگرداں پھرتے رہتے ہیں۔ (انہیں حق میں سچی دلچسپی اور سنجیدگی نہیں ہوتی بلکہ فقط لفظی و فکری جولانیوں میں مست اور خوش رہتے ہیں)۔ اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیں۔ سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدح خواں بن گئے) اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعے اسلام اور مظلوموں کا دفاع کیا بلکہ ان کاجوش بڑھایا) اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ (مرنے کے بعد) کونسی پلٹنے کی جگہ پلٹ کر جاتے ہیں۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان من الشعر لحمة (بے شک کچھ اشعار حکمت سے پ ±ر ہوتے ہیں۔)(بخاری، الصحیح، 5: 2276، رقم: 5793، دار ابن کثیر الیمامة بیروت) اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شاعری کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ھو کلام فحسنہ حسن وقبیحہ قبیح (یہ کلام ہے چنانچہ اچھا شعر، اچھا کلام اور برا شعر، برا کلام ہے۔)(ابویعلی، المسند،دار قطنی)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس انجشہ نامی ایک لڑکا تھا جو دورانِ سفر اپنی سریلی آواز سے اونٹوں کو مست کیا کرتا تھا تاکہ وہ تیز رفتاری سے سفر طے کریں، ایک مرتبہ دورانِ سفر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قافلے میں شامل عورتوں کا خیال رکھنے کا حکم فرمایا کہ وہ اپنی سریلی آواز سے اونٹوں کو اتنا نہ دوڑائے جس سے خواتین کو تکلیف پہنچے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک خوش الحان حدی خواں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: اے انجشہ، شیشوں کو نہ توڑنا، یعنی کمزور عورتوں کو تکلیف نہ دینا۔(مسلم، الصحیح، 4: 1812)
لہٰذا اچھا اور معیاری کلام ہر مسلمان مرد و عورت، بوڑھے اور جوان کے لیے مباح وجائز ہے جبکہ لغو اور فحش کلام ہر مسلمان کے لیے ناجائز وحرام ہے۔(مفتی: محمد شبیر قادری)
دوسرا فتویٰ بھی پیش خدمت ہے جو غزل کے بارے میں سوال کرنے پر پاکستان کے معروف دینی ادارہ ”جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن“ کے دارالافتاءسے دیا گیا ہے۔
سوال :غزل لکھنا کیسا ہے ؟
جواب: فقہاءنے مباح اشعار کے پڑھنے کوجائز قراردیا ہے، لہذا ایسی غزلیں جو عبرت آموز اور نصیحت خیز ہوں، صالح مقصد کی حامل اور تعمیری ہوں، ان کا لکھنا اور کہنا جائز ہے۔ لیکن اگر کسی غزل کا مقصد سفلی جذبات کو برانگیختہ کرنا اور اباحیت و اخلاقی انارکی پیدا کرنا (یا اس کے علاوہ گناہ وفساد پر مشتمل کوئی غرض) ہو تو یہ گناہ اور ناجائز ہے۔
جس صورت میں غزل لکھنا اور کہنا جائزہے، اس صورت میں بھی اس کو مستقل مشغلہ یا ذریعہ معاش بنانے کو فقہاءنے مکروہ لکھا ہے۔ (فتاوی شامی - ج: ۶، ص: ۳۵۰ِ و ۴۲۴، ط؛ سعید) فقط واللہ اعلم ۔ فتوی نمبر : 143902200082(دارالافتائ: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
درج بالا سوال و جواب سے شاعری کی شرعی حیثیت کا تو اندازہ ہوگیا ہوگا؛ آخر میں شعراءکے اس اشکال کا بھی جواب دے دینا مناسب رہے گا کہ عشقیہ شاعری اور عام طور پر حسیناؤں کو مخاطب کرکے جو غزلیں کہی جاتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؛ تو اس بارے میں شرع کا حکم یہ ہے کہ ایسی شاعری ”لایعنی“ باتوں کے زمرے میں آتی ہے؛ لہذا جو گناہ لایعنی باتوں کا ہے وہی اس طرح کی شاعری کا بھی ہوگا؛ لیکن عشقیہ شاعری بھی کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہوجاتی ہے۔ (۱) شاعر عشقیہ غزل لکھنے میں اگر صالح نیت رکھے اور اپنے ہر شعر کا مصداق اپنی بیویوں کو بنائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۲) اسی طرح اگر تفریح طبع کے لیے مطلقاً عشقیہ اشعار کہے جائیں ان دو شرطوں کے ساتھ کہ اس میں کسی غیر محرم کو مخاطب کرنا مقصد نہ ہواور اشعارمیں بے حیائی کی بات نہ ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ تاہم یہ بات ہر شاعر کے خیال میں رہے کہ شاعری اگر شدت پکڑجائے تو یہ ایک خطرناک بیماری ہے جس سے دنیوی اہم امور کے ساتھ ساتھ دین کا بھی کافی نقصان ہوتا ہے، بہت سے شعراءکہتے ہیں کہ ہمیں نماز میں بھی شعرکا نزول ہوتاہے، ایسی کیفیت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ شعر و شاعری میں کم سے کم وقت دیا جائے، لہذاہر شاعر کو چاہیے کہ شعر کی تخلیق پر زیادہ دھیان نہ دے کر اپنی دنیا و آخرت کی فکر میں لگا رہے تو بہتر ہوگا۔ ایک مہینے میں کہاگیا ایک پرمغز شعر ایک دن میں کہے جانے والے سیکڑوں بے فائدہ اشعار سے بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 تبصرے