Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

حضرت مولانا حزیفہ صاحب وستانوی ایک بے مثال عظیم ترین مفکر شخصیت


       محمد اکرم پرتاپگڑھی 07-05-2020


        امت مسلمہ کی کوکھ ابھی اتنی بھی بانجھ نہیں ہوئی ہے کہ لعل و گہر نایاب ہوجائیں، یہ سچ ہے کہ کمیاب ہیں لیکن نایاب نہیں ہیں، بھارت کے مختلف علاقوں میں مختلف عناوین سے ایسے بہتیرے عظیم شخصیات ہیں، جو امت مسلمہ کے حال و مستقبل کے لیے واقعۃً فکر مند ہیں، انھیں عظیم شخصیات میں ایک عظیم نوجوان عالم دین حضرت مولانا حزیفہ صاحب وستانوی ہیں، 

        حضرت مولانا حزیفہ صاحب وستانوی مشہور عالم دین حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کے منجھلے صاحب زادے ہیں، بھارت کی عظیم دینی و عصری درسگاہ ازہر مہاراشٹر بلکہ ازہر ہند جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے معتمد ہیں، آپ کی فراغت جامعہ اکل کوا سے ہی ہوئی ہے، اور مکمل تعلیم و تربیت بھی اسی گہوارے میں   ہوئی ہے، اللہ نے آپ کو فکری و تخلیقی ذہن و دماغ سے نوازا ہے، آپ جہاں بہترین خطیب ہیں وہیں بہترین قلم کار بھی ہیں، شیخ الحدیث مولانا یونس صاحب جونپوری رحمت اللہ علیہ نے آپ کے قلم کی تائید و توثیق کی ہے،

        آپ فراغت کے بعد جامعہ اکل کوا میں ہی ایک استاذ کی حیثیت سے خدمت کرنے لگے، لیکن دور بین اساتذہ نے آپ کی قابلیت و صلاحیت کو جلد ہی بھانپ لیا اور آپ کو جامعہ اکل کوا کی انتظامیہ کا حصہ بنا دیا، آپ نے  جامعہ اکل کوا کے انتظامی امور میں بہت ساری اصلاحات کی ہیں، اور اب ایک مدت سے باقاعدہ آپ ہی انتظامی امور سنبھالے ہوئے ہیں، 

      اللہ رب العلمین نے آپ کو ذوق مطالعہ سے بھی خوب نوازا ہے، آپ اس سلسلے میں اکابر و اسلاف  کی یاد گار ہیں، آپ جس عنوان پر بحث کرتے ہیں اس کے تمام تر لوازمات پر بھرپور روشنی ڈالتے ہیں، کسی ایک بھی پہلو کو تشنہ باقی نہیں رکھتے ہیں، 

        چونکہ آپ ایک عظیم درسگاہ کے عظیم ترین ذمہ دار ہیں، اس لئے طلبہ کی تعلیم و تربیت آپ کا خصوصی مشغلہ ہے، آپ اپنی تمام تر فکر و صلاحیت اسی اہم مشغلے میں صرف کرتے ہیں، طلبہ کے معاملے میں آپ کو اللہ نے جہاں ایک مربی باپ کی طرح  تربیت کے سلیقے سے نوازا ہے، وہیں اللہ نے آپ کو ایک مشفق ماں کا دل دیا ہے، اگر میں یہ کہوں کہ بھارت میں اتنی کم عمر میں اتنی بڑی زمہ داری صرف مولانا حزیفہ صاحب وستانوی سنبھال رہے ہیں، تو میری یہ بات یقیناً سچی ثابت ہوگی، 

         آپ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے بیعت ہیں، اور میری معلومات کے مطابق حضرت شیخ الاسلام سے مولانا محمد حزیفہ صاحب وستانوی کے مراسم کافی مضبوط ہیں، اور بھارت  فکر تقی عثمانی کی نشر و اشاعت میں کافی اہم رول مولانا حزیفہ صاحب وستانوی ادا فرما رہے ہیں، جس طرح حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب تجارت و معیشت میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں، اسی طرح مولانا حزیفہ صاحب وستانوی کو بھی اس موضوع سے اچھی خاصی دلچسپی ہے، اور اس عنوان پر آپ کافی گہرا مطالعہ رکھتے ہیں، بندہ راقم الحروف نے حضرت شیخ الاسلام کی کتاب "اسلام اور جدید معیشت" مولانا حزیفہ صاحب وستانوی سے ہی پڑھی ہے، 

          آپ طلباء جامعہ اکل کوا کے لئے ہر وقت فکر مند رہتے ہیں، تعلیم و تربیت سے لے کر کھانا کپڑا اور تیل صابون تک کا انتظام اس طرح فرماتے ہیں، جیسے ماں اپنے بچوں کے لئے فکر کرتی ہے، اللہ نے آپ کو اپنے والد محترم کی طرح ذوق سخاوت سے بھی نوازا ہے، بندہ راقم الحروف نے مولانا کے اس وصف خاص کا بارہا مظاہرہ کیا ہے، آپ ایک ایک طالب علم  کی طرف سے فکر مند رہتے ہیں، رات  دن ہر گھڑی آپ جامعہ کے طلبہ کے لئے فکر کرتے رہتے ہیں، بسا اوقات طالب علم کی بڑی سی غلطی صرف اس لئے نظر انداز کر جاتے ہیں کہ شاید اسی طرح بچے کی اصلاح ہوجائے، 

        آپ بہت اچھے مضمون نگار ہیں، آپ کے مضامین کی کئی خصوصیات ہیں ، جس میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ جو عنوان اٹھاتے ہیں اس کا حق ادا کر دیتے ہیں، کسی زاویہ سے کچھ باقی نہیں چھوڑتے ہیں، خواہ مضمون کتنا ہی طویل ہوجائے، 

           حضرت مولانا حزیفہ صاحب وستانوی نے لاک ڈاؤن کے پریشان کن موقع پر طلباء جامعہ اکل کوا کے لئے جو عظیم ترین خدمت انجام دی ہے اسے بطور مثال ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، 

      ظاہر سی بات ہے کہ اس وقت ہر شخص اپنے اپنے وطن پہنچنے کے لئے پریشان ہے، ہزاروں کلومیٹر کا سفر پیدل کیا جا رہا ہے، اور اس اذیت ناک سفر میں کتنی جانیں بھی جا چکی ہیں، سن 1947 اور  سن 2020 میں صرف اتنا فرق ہے کہ اس وقت کی تصاویر سادی تھیں اور اس وقت کی تصاویر رنگین ہیں، خیر جب لاک ڈاؤن 3 میں سرکاری طور پر دور دراز علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے کچھ چھوٹ ملی، تو حضرت مولانا محمد حزیفہ صاحب وستانوی بھی حرکت میں آگئے، اور مقامی انتظامیہ سے ملاقات کر کے جامعہ اکل کوا میں مقیم دسیوں ہزار طلبہ کو ان کے وطن تک پہنچانے کی عظیم ترین کوشش کی، اور آپ اپنی اس کوشش میں مکمل طور پر کامیاب بھی ہوئے، چنانچہ دور دراز علاقوں کے طلبہ بذریعہ ٹرین اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے، خاص بات یہ بھی رہی کہ رئیس جامعہ اکل کوا مولانا غلام محمد صاحب وستانوی بذات خود نندوربار ریلوے اسٹیشن پر تشریف لائے، اور اپنی نظروں کے سامنے طالبان علوم نبوت کو ان کے گھروں کی طرف روانہ فرمایا، ظاہر سی بات ہے کہ سخت گرمی، مختلف امراض میں مبتلا ، بحالت روزہ، اکل کوا سے نندوربار ریلوے اسٹیشن قریب پچاس کلو میٹر کی دوری کے  تکلیف دہ راستے پر واقع ہے، لیکن مہمانان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے پیش نظر اسٹیشن تک انھیں پہنچانے جانا یہ مولانا محمد حزیفہ صاحب وستانوی اور مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ہی کا ظرف ہے، 

      آپ کی یہ عظیم قربانی ارباب مدارس کے لئے مثال اور نمونہ ہے، اس عظیم خدمت کو ارباب علم و فضل کافی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، بلکہ موقر و مستند و مایہ ناز عالم دین حضرت مولانا خلیل الرحمان صاحب سجاد نعمانی نے اسی عظیم خدمت کے حوالے سے مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کے لئے  دعا فرمائی ہے، 

         اس واقعہ سے مولانا حزیفہ صاحب وستانوی کی اہمیت و عظمت پر چاند لگ گئے ہیں، اور مختلف اہل قلم وستانوی صاحب کی اس عظیم خدمت کو سراہ رہے ہیں، کئی مضامین میری نظروں سے اس عنوان سے گزرے، چونکہ عام لوگوں کی نظروں میں مولانا حزیفہ صاحب وستانوی کے متعلق یہی ایک عظیم کارنامہ ہے، لیکن بندہ راقم الحروف جامعہ اکل کوا کا ایک ادنی سا طالب علم ہے، اور قریب دس سال یعنی ایک دہائی جامعہ میں گزار چکا ہے، اور شرارتی ہونے کی وجہ سے بارہا مولانا حزیفہ صاحب وستانوی سے سابقہ پڑ چکا ہے، ڈنڈے سے لے کر چمکارنے تک کا سفر طے ہوا ہے، اس لئے اس واقعہ کے ساتھ مزید معلومات مولانا حزیفہ صاحب وستانوی کے متعلق جو کچھ میرے علم میں تھیں میں نے اسے واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اور انصاف کی بات سیدھے طور پر یہ ہے کہ جو کچھ بھی لفظوں میں ڈھالا گیا ہے وہ سوئی ہے اور اس کے مقابلے میں مولانا حزیفہ صاحب وستانوی سمندر ہیں، یہ جملہ بلا مبالغہ ہے، کسی قسم کے شاعرانہ خیال کی ذرہ برابر آمیزش نہیں ہے، آپ میرے استاذ ہیں، میرے مربی ہیں، میرے کرم فرما ہیں، 

    خدا کرے میرے یہ ٹوٹے پھوٹے چند جملے ان کی بارگاہ میں قبول ہو جائیں، جو ایک نالائق و ناقدرے بیٹے کی جانب سے ایک عظیم روحانی باپ کی نسبت لکھے گئے ہیں، 

       الہی میری قسمت پائے یہ رنگ قبول، 

    پھول کچھ میں نے چنے ہیں ان کے دامن کےلئے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے