زین شمسی
پہلے تو اس بات کی مبارک باد قبول فرمائیں بھائی صاحب کہ آپ کے سمینار کی ٹائمنگ بہت زبردست ہے، کیونکہ لاہور اور دہلی کااصلی رام لال بھاٹیہ اورنقلی فکر تونسوی ابھی گزشتہ ایک ہفتہ سے برصغیر کے اُسی ’چھٹا دریا ‘میں ہچکولے لیتا ہوا دکھائی دیا ، جو تقسیم ہند کے انماد میں اُپھان پر تھا۔
ایک مبارک باد اس لئے بھی بنتی ہے کہ چلئے سو سال بعد ہی کسی کو فکر کی فکرتو ہوئی۔ فکر تونسوی کے ادبی سلسلہ سے گزریئے تو احساس ہوتا ہے کہ نہ فکر کو دنیا کی فکر تھی اور نہ ہی دنیا کو اس کی فکر ہوئی۔
ہندو مسلمان کے فسادات نے ہمیں تین چیزیں دی ہیں۔ ایک مملکت خداد یعنی پاکستان ، دوسرامنٹو ، اور تیسرا فکر تونسوی ،
فکر تونسوی شاید دنیا کا پہلا شاعر ہے جسے فسادات نےمزاح نگار بنادیا اور شاید یہیں پر ان سے غلطی ہو گئی ، وگرنہ بیچارہ شاعر بنا رہتا تو ہر سال ان کے نام پر کوئی نہ کوئی سمینار ہوتے ہی رہتے ، لیکن کیا کیجئے ، مزاح نگار کو پوچھتا ہی کون ہے ۔
کہتے ہیں کہ بدمعاش آدمی کے مذاق میں شیطانی ہوتی ہے اور شریف آدمی کی شیطانی میں مزاح ۔ اتفاق سے فکر تونسوی شریف نکلا اور اتنا شریف کہ جب دنیا کی سب سے بڑی انسانی ہجرت ہو رہی تھی ۔ افراتفری کا ماحول تھا ، ہندو اور مسلمان بھوکے بھیڑیئے کی طرح ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ، یہ واحدآنجناب تھے ، جواپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر بے فکر گھوم رہے تھے۔ انہیں تو بے فکر تونسوی ہونا چاہیے تھا، فکرتونسوی کو فکر ہوتی تو ایسا کرتا بھلا۔
سہیل عظیم آبادی کی رائے آپ نے ان کے بارے میں سنی ہے جو انہوں نے ’’چھٹا دریا‘‘ کے دیباچے میں پیش کی ہےکہ
’’جب لاہور میں آگ اور خون کا تماشا ہو رہا تھا تمام ہندو اور سکھ لاہور چھوڑ رہے تھے توفکر تونسوی لاہور میں رہا‘ اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ ان کے گھروں میں‘ اسے خود اپنے اوپر اور اپنے دوستوں پر بھروسہ تھا‘ اس نے کبھی بے اطمینانی محسوس نہیں کی‘ شاید سارے لاہور میں وہ تنہا ہندو تھا جو ان ہنگامہ خیز دنوں میں شہر کے اندر اور مسلمانوں کے ساتھ گھومتا رہا‘ ہوٹلوں میں چائے پیتا رہا۔‘‘
ان کے ہم عصر کنہیا لال کپور بھی ان کا" " "’’کچا چٹھا ‘‘کھولتے ہوئے لکھتےہیں کہ فکر تونسوی نے اردو ادب میں ایک لفظ تونسہ کا اضافہ کیا ہے۔ مصنف کا نقلی نام فکر تونسوی ہے (اصلی نام کافی واہیات تھا)پہلی جنگ عظیم میں پیدا ہوااور تیسری جنگ عظیم میں کوچ کر جائے گا۔والدین غریب تھے اس لیے والدین یعنی غریبوں کے حق میں لکھنے کی عادت پڑ گئی ۔اس کی خواہش ہے کہ غریب ہمیشہ قائم رہیں کہ کوئی ہمیشہ لکھتا رہے۔شروع شروع میں نظمیں لکھتا تھا جو اس کی اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتی تھیں ۔ بڑی مشکل سے اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ گھٹیا شاعر اور بڑھیا نثر نگار ہے۔چنانچہ نثر میں مزاحیہ اور طنزیہ چیزیں لکھنے لگا۔پہلے اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اچھا لکھتا ہے ۔لیکن جب قارئین نے شور مچادیا کہ وہ اعلیٰ ترین طنز نگار ہر ،تب اسے بھی اپنے اعلیٰ ترین ہونے کا یقین آگیا ۔جس دن یہ یقین ٹوٹ گیا وہ خود کشی کرلے گا۔شکل بھونڈی ہے ،تحریر خوبصورت ہے اور یہ دونوں چیزیں خداداد ہیں ۔لوگ اس کی تحریر پڑھ کر اسے دیکھنا چاہتے ہیں ،جب دیکھ لیتے ہیں تو اس کی تحریریں پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ا س لیے مصنف دنیا سے منھ چھپاتا پھرتا ہے ۔عزت قائم رکھنے کے لیے انسان کو سب کچھ کرنا پڑتا ہے ۔و ہ اب تک ہزاروں صفحے لکھ چکا ہے اور لاکھوں مداح پیدا کرچکا ہے ۔اس کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں صفحے اور کروڑو مداح اس کی ارتھی کے ساتھ جائیں گے۔جن میں زیر نظر کتاب اور اس کے پڑھنے والے بھی شامل ہوں گے۔ (یہ کچا چٹھا مصنف نے خود اپنے منھ میاں مٹھو بن کر لکھا)
بقول کنہیا لال کپورکہ انہوں نے ادب میں صرف ایک لفظ تونسہ کا اضافہ کیا ہے ،تو خود فکر تونسوی اس کیس کو کیسے ڈیل کرتے ہیں ۔ دیکھئے:
’’میں تونسہ میں پیدا ہوا، اگر تونسہ میں پیدا نہ ہوا ہوتا تو لاڑ کانہ میں ہو جاتا، ٹمبکٹو بھی کوئی بری جگہ نہیں تھی لیکن مجھے ہر جگہ فکر ہی کہا جاتا اور ہر جگہ میرا باپ چوہدری نارائن سنگھ کا میر منشی دھنپت رائے ہی ہوتا، جن کے گھر خلاف توقع ایک ادیب جنم لیتا اور دیوتا پھول نہ برساتے صرف اس ٹیکنیکل بنا پر کہ میر منشی کی چھت کے نیچے ڈیڑھ سو کمرے نہیں بلکہ ڈیڑھ کمرہ ہے‘‘۔
اب مجتبیٰ حسین کو سنئے:
حضرت قبلہ نے اس دنیا میں آکر کوئی کام کیا ہے تو بس یہی کہ بیٹھے بیٹھے فقرے ڈھالتے رہتے ہیں۔ کسی نے انہیں کچھ کہہ دیا اور انہوں نے ایک فقرہ اُچھال کر اس کی خدمت میں پیش کردیا ۔ سماج نے ان کے خلاف کوئی زیادتی کی اور انہوں نے سماج کے خلاف ایک زوردار پھڑکتا ہوا طنزیہ فقرہ کس دیا اور مطمئن ہوگئے...میں تو کہتا ہوں کہ یہ جو فکر تونسوی اپنے مضامین میں سچ بات کہتے ہیں تو یہ اصل میں وہ نہیں کہتے بلکہ ان کے اندر بیٹھا ہوا گنوار اُن سے سچ کہلواتا ہے ۔ اسی لئے تو ان کے سچ پر اعتماد کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ ان حضرت کی کوئی ایک خامی ہو تو بیان کروں۔ ان کی ذات میں تو خامیوں کے دفتر کھلے ہیں۔
توکیا فکر ایک فقرہ باز ادیب تھے ، کیا ان کے فقرے غیر انسانی و غیر اخلاقی سماج کی پیٹھ پر چابک کی طرح پڑتے تھے۔ کیا وہ گنجلک ، پیچیدہ اور مبہم معاشرہ کو اپنے فقرے سے تنگ کرنا چاہتے تھے۔ کیا واقعی وہ اتنے بے فکر تھے کہ ظلم کی انتہا پر بھی ہنس دیا کرتے تھے۔ کیا ایک طنزنگار کی ذمہ داری صرف اس کے سامنے ہو رہی ناانصافیوں پر ہنس دینے سے پوری ہو جاتی ہے۔
آخر یہ طنز نگار ہوتےکیا ہیں ، کیوں وہ کسی سنجیدہ مسئلہ کوانتہائی شگفتگی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اپنی راہ لگ جاتے ہیں۔ آدمی میں طنز کا پیدا ہونا کیا ہے ۔ ان سب کا جواب انسان کی نفسیاتی اسٹڈی کرنے والے ماہرین دے سکتے ہیں ، لیکن میرے نزدیک اس کا جواب صرف ایک شعر ہے اور وہ شعر ان صاحب کا ہے ، جس کے نام پر بنے ہوئے اس اکادمی میں ہم سب لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔
رنج سے خوگر ہو اانساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پرپڑیں اتنی کہ آسان ہوگئیں
ایک غریب آدمی جو مکمل طور پر اپنی پڑھائی بھی مکمل نہ کر سکے۔ ایک حساس طبیعت آدمی جو غربت کی زندگی کو نہ صرف نزدیک سے دیکھے بلکہ اسے محسوس کرے۔ایک شاعرانہ مزاج آدمی جو انسان دوستی کو اول مقام پر رکھے ، ایک کشادہ ذہن آدمی جو آدمی کو مذاہب کے چشمے سے نہیں بلکہ انسانیت کی نظر سے دیکھے اور پرکھے ، اس آدمی کی زندگی میں ایک وقت ایسا آجائے ، جب اسے اپنا وطن اپنے دوست اپنے ہمسائے اپنی زمین اپنا وطن اپنی یادیں ، اپنے خواب چھوڑ کر بغیر کسی جرم کے دوسرے وطن میں ہجرت کرنا پڑے تو اس کے آنسوئوں کا درد اس کے ہونٹوں پر ایک دردناک مسکراہٹ کی شکل میں پھیلنا فطری ہے۔ فکر تونسوی اِسی درد کا مارا ہوا انسان ہے جس کے سامنے دنیا بازیچہ اطفال ہے۔ مجتبیٰ حسین صاحب !دراصل ان کا فقرہ اس ٹیڑھے میڑھے ، کج رو اور ظالم ہوتے جارہےسماج سے ایک کمزور اور حساس شخص کا انتقام ہے۔
ان کے غصہ اور انتقام کی ایک جھلک ان کی اپنی تحریر میں دیکھئے” ہاں یہ کتاب میں نے کلوا دھوبی کے لیے لکھی ہے ،جو اسے پڑھ نہیں سکتا ۔ہم دانشمند لوگ بہت سے کام ایسے کرتے ہیں جن کا مقصد شانتی لال کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے ،مگر فائدہ کانتی لال اٹھاتا ہے ۔اور اسی کو ہم ڈیموکریسی کہتے ہیں۔ ڈیموکریسی کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ وہ شانتی لال اور کانتی لال دونوں کے لیے ہوتی ہے۔اس لیے شانتی لال روتا ہے اور کانتی لال ہنستا ہے ،اور اس رونے اور ہنسنے کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ایک زبردست کارنامہ ہے ،جس سے تاریخ جنم لیتی ہے اور نہ جانے اس طرح کی کتنی الم غلم عظیم چیزیں جنم لیتی ہیں۔’ آخری جملہ ہے ؛ اور یہ کتاب میری معصومیت کی لاش کا نوحہ ہے۔”
دراصل فکر کی ہندی میں آٹھ کتابیں اور اردو میں بیس کتابیں محض فقرے نہیں ہیں یہ اس سماج کی سڑی ہوئی لاش کا گندھ ہے جس پر فکر تونسوی نے اپنی مزاح نگاری کاکافور چھڑک رکھا ہے تاکہ دنیا والے اس کی خوشبو میں اس تعفن کا بھی احساس کریں جو ان کے گرد اگرد ہنرمندان سیاست و عقائدنے پھیلا رکھا ہے۔
وہ سو فیصدی بے فکر نہیں تھے۔ وہ ایک مستند ادیب تھے اور وہ بھی بے حد جذباتی۔ جب تقسیم ہند کی آندھی چلی ۔جب لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کا دلخراش منظر سامنے آیا تو اپنے بیوی بچوں کے لیے بے حد فکر مند ہو ئے۔ساحر لدھیانوی، قتیل شفائی اور احمد راہی وغیرہ تونسہ گئے تاکہ ان کی بیوی بچوں کو بخیر و عافیت لاہور لایا جا سکے ، لیکن حالات ایسے تھے کہ ان کی بیوی دروازہ کے پیچھے کھڑی رہی اور گھر والوں نے کہہ دیا کہ وہ تو چلی گئی۔فرقہ وارانہ فسادات کے بعد فکر تونسوی بطور رفیوجی ہندوستان تشریف لے آئے ۔
نصیر الدین احمد بوگس حیدرآبادی نے کہیں لکھا کہ ’’اس وقت بے شمار انسانوں میں فکر بھی شامل تھے جو اپنی نہیں بلکہ انسانیت کی فکر کر رہے تھے‘ انسانیت سوزی کا یہ چھٹا دریا فکر کی زندگی اور ان کے فکر و خیال کو ایک نیا موڑ دیتا ہے۔ اب فکر وہ فکر نہیں تھے جو مشق سخن میں مشغول رہتے تھے‘ اب انہیں انسانیت کی فکر تھی‘ تہذیب کی فکر تھی‘ اخلاقی قدروں کی فکر تھی‘ اعلیٰ انسانی آدرشوں کی فکر تھی‘ فکر کی زندگی میں 1947ء کی تقسیم کا سانحہ بڑی اہمیت رکھتا ہے‘ 1947ء میں فکر تونسوی نے لاہور میں انسانیت سوزی کے ایسے ہولناک واقعات دیکھے جو ہمیشہ کیلئے ان کے ذہن پر مرتسم ہو گئے۔‘‘
اور یہی ہولناکیاں کبھی ’چھٹا دریا ‘بن کر تو کبھی ’ ساتواں شاستر‘ بن کر تو کبھی’ پیاز کے چھلکے ‘بن کر ان کے قلم سے وارد ہوتا رہا۔زندگی کے تقریباً تمام سروکاروں پر فکر تونسوی کی فکرمندی اپنے منفرد انداز میں جھلکتی رہی ہے۔ پیاز کے چھلکے میں ان کس طنز واقعی آنسو رلاتا ہے۔ میں حوالہ تو نہیں دے سکتا ، لیکن کہیں کسی جگہ انہوں نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ میں اور میریی بیوی ہنی مون کی لئے گھر سے نکلے ، بس اسٹینڈ پر پتہ چلا کہ شہر میں کرفیو نافذ ہے۔ بیوی نے معصومیت سے پوچھا یہ کرفیو کیا ہوتا ، میں نے کہا یہ بھی ایک طرح کا ہنی مون ہی ہوتا ہے جو ہندو اور مسلمان گاہے بگاہے مناتے رہتے ہیں۔ اب اس طنز کوتھوڑا اور آگے بڑھا دیجئے اور اسے ہندوستان اور پاکستان بنا دیجئےجو گزشتہ روز سے شہ سرخیوں میں رہا۔
فرحت اللہ بیگ ، رشید احمد صدیقی ، مرزا عظیم بیگ چغتائی ، پطرس بخاری ، شوکت تھانوی ، ملا رموزی ، کنھیا لال کپور ، ابن انشا ، مشفق خواجہ ، یوسف ناظم ، مجتبیٰ حسین اور مشتاق احمد یوسفی ، طنز و مزاح کے آسمان پر بکھرے ہوئے ان کہکشاں میں فکر تونسوی ایک ایسا چمکتا ستارا ہے ، جس کا انداز بیاں منفرد اور نرالا ہے۔
0 تبصرے