یوں تو دیارِ محبوبِ ربِّ کبریا، شہرِ حبیبِ رب العالمین، سرزمینِ مہبطِ وحی، مقامِ نزولِ جبرئیلِ امین میں شرفِ حضوری، اس کی مقدّس و معطّر فضاؤں سے تن و من کی پاکیزگی، وہاں کے نورانی انوار وبرکات سے مجھ جیسے گنہ گار کے گناہوں کے دبیز پردوں کی چاک دامنی، جنت کے باغ میں جبینِ نیاز کی خمی، سنہری جالیوں کے سامنے آنسؤوں کی نہ تھمنے والی جھڑی، محاسبہ نفسی کے ساتھ ساتھ زبان پر ذکرِ درودوسلامی، یہ باری تعالیٰ کے ان عظیم احسانات و انعامات میں سے ہے کہ جس کا تا عمر بھی شکر ادا کیا جائے تو کم ہی کم ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے۔ کہ
"کہاں میں اور کہاں یہ نکہتِ گل
نسیمِ صبح تیری مہربانی ہے"
لیکن اگر مزید برآں اس حضوری کو باری تعالیٰ نعتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی محفل کی نورانیت سے محظوظ ہونے کی سعادت سے نوازدے تو زہے قسمت۔
یوں تو مدینہ منورہ کا ہر مبارک سفر ہی یادگاری ہوتا ہے، لیکن اس سفر کی چاشنی اور حلاوت ہی ایسی تھی کہ اس کو قلمبند کئے بغیر دل کسی طرح راضی نہیں ہوا۔
مدینہ منورہ کے لئے ہمارا سفر جدہ سے بذریعہ بس ٢٥ جمادی الثانیہ ١٤٤٦ بروز جمعرات کو ہوا۔
میرے رفیقِ سفر مفتی عمر صاحب لکھنوی تھے (جو اک خوش الحان قاری، مترنِّم نعت خواں، شریف الطبع، خوش اخلاق، ملنسار اور نرم طبیعت کے مالک ہیں)
بس پر پا بہ رکاب ہونے سے پہلے ہی احقر نے رفیقِ محترم جناب شجاع صاحب (جومدّاحِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ایک عظیم عالمی نعتیہ شاعر، نرم مزاج، خوش گفتار، خوش گفتار اسلئے کہا ہے کہ ان کے ساتھ جتنا وقت بھی گزارا جائے، بوریت کا احساس نہیں ہوتا؛ بلکہ اپنی پر لطف گفتار سے مخاطب کے چہرے پر ہنسی کے پھول کھلائے رکھتے ہیں، مقیمِ حال مدینہ منورہ) کو آمد کی اطلاع دی اور ایک نعتیہ محفل سے شرف بخشنے کی درخواست کی، جس کو انہوں نے اپنی تنگ دامانیِ وقت کے باوجود شرفِ قبولیت سے نوازا۔
خیر جمعہ کو علی الصباح ہم نے مدینہ منورہ کی مسجدِ قبا (جسے اسلام کی اولین مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے) پہنچ کر دوگانہ ادا کیا، پھر اپنے کمرہ استراحت پہنچے اور سامان رکھ کر ہم فی الفور مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روانہ ہوئے، فجر کی نماز ادا کرکے سرورِ کونین، رحمۃللعالمین، فخرِ دو جہاں، شافع المذنبین جناب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضر ہوکر درودوسلام کا نذرانہ پیش کیا، جہاں آقائے نامدار بنفسِ نفیس مجھ جیسے گنہ گار، سیہ کار امتی کے سلام کا جواب عنایت فرماتے ہیں اور یقین جانیے اس موقع پر دل ودماغ سرور و نورانیت کی جس کیفیت سے محظوظ ہوتے ہیں زبان اس کو بیان کرنے سے گنگ بھی ہے اور قاصر بھی۔
یوں پورے دن اپنے آپ کو مدینہ منورہ کی پر نور اور معطّر فضاؤں سے سامانِ تسکینِ روح و قلب فراہم کرتے رہے۔
بعد نمازِ عشاء جناب شجاع صاحب ہمیں مسجدِ نبوی میں لینے آگئے، بطور میزبانی ایک شاندار اور بہترین ہوٹل میں لے گئے جہاں ان کی طرف سے ایک پر تکلّف عشائیہ کا انتظام تھا۔
کھانے سے فراغت کے بعد جب گاڑی کی طرف بڑھے تو جناب شجاع صاحب نے یہ تجویز سامنے رکھی کہ کیوں نہ محفلِ نعتِ نبی گاڑی میں سجالی جائے، اس نئے تجربہ پر بطیبِ خاطر آمادگی کا اظہار کرلیا گیا۔
پھر کیا تھا گاڑی اسٹارٹ ہونے کے ساتھ ساتھ نعتِ نبی کی محفل کا بھی آغاز ہوگیا۔
مجلس کا آغاز جناب شجاع صاحب کے فرزند ارجمند محمد حسان سلّمہ کی اس نعتِ نبی سے ہوا۔
ایک ایسی تمنا بھی سینے میں ہے
جس تمنا کا حاصل مدینے میں ہے
پھر تو شہرِ رسولِ اطہر کی پاکیزہ گلیوں میں قصداً بھٹکتے ہوئے بزبان حال یوں گویا تھے:
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے
اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے
کبھی مفتی عمر صاحب کی آواز میں"حرم کی مقدّس فضاؤں میں گم" ہونے کا تصور تھا، تو کبھی شجاع صاحب کی برجستہ کلامی سے گنبدِ خضرا کی نورانیت سے منوّر ہونے کا احساس اجاگر تھا، کبھی "هذا جبل يحبنا ونحبه" کی پر نور وادی میں نعتِ نبی کے زمزمے گونج رہے تھے، تو کبھی مسجدِ قبا کی ضیا پاشی کی جلوہ سامانیوں میں شجاع صاحب کی مدحتِ نبی سے "محبوبِ ربِّ کبریا کے قدمِ میمنت" کے تصوّر سے روح کوجِلا بخشا جارہا تھا، تو کبھی مسجدِ نبوی کے بلند میناروں کے سایہ تلے مفتی عمر صاحب کی نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم "زیرِ دیوارِ کعبہ جو مانگی گئی وہ حسیں وہ مبارک دعا آپ ہیں" سے دل ودماغ ہی نہیں بلکہ روح کی تسکین کا بھی احساس نمایاں تھا، ان مقدّس گلی کوچوں میں محفلِ نعتِ نبی سجائے دو ڈھائی گھنٹے کب گذر گئے معلوم ہی نہ ہوسکا۔
با دلِ نا خواستہ اس متبرَّک، معطّر، پر نور اور روحانی محفل کو موقوف کرنا پڑا۔
اللّہ تعالیٰ ایسی محفلوں کو بار بار سجانے کی سعادت سے سرفراز فرمائے اور غلامانِ مصطفیٰ کے غلاموں میں ہمارا نام بھی شامل فرمائے، حبِّ نبوی اور سنتِ نبوی پر زندگی گزارنے کی سعادت مرحمت فرمائے اور بار بار حرمین شریفین کی مقدّس فضاؤں میں سانس لینے، سر زمینِ حرمین شریفین میں پھر سے حاضری اور جبینِ نیاز خم کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین!
*ایک شب ان کے در پر کٹی اس طرح*
*خوش نصیبی مقدر ہوئی اس طرح*
✍️: عبد القادرقاسمی دیوبندی
مقیمِ حال جدّہ۔
0 تبصرے