Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

‏کیا ووٹ امانت ہے؟ : ایک تحقیقی مقالہ



بعض حضرات کہتے ہیں کہ ووٹ امانت ہے لہذا اس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے اور اپنے حقدار کو دینا چاہئے، اور استدلال میں اس آیت کریمہ کو پیش کرتے ہیں

" إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ ‏أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدُلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ( سورة النساء : 58)

اس پر ہم مختصر تجزیہ کرتے ہیں :

اس سے قطع نظر کے آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ اور اس امانت کے بارے میں کونسے اقوال ہیں ؟ یہ بات ذکر کرتے ہیں کہ اس آیت کریمہ ‏میں امانت سے ہر وہ حق مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ پر اداء کرنا واجب اور ضروری ہو یا ایک بندے کا دوسرے بندہ پر کوئی واجب حق ہو، اللہ تعالیٰ کے حقوق مثلاً ، نماز ، روزہ، حج ، نذر، وغیرہ لازمی اور ضروری فرائض و واجبات ، اور ایک بندہ کا دوسرے بندے پر مثلاً ‏جو ایک دوسرے کے ساتھ امانتیں رکھتا ہوں یا قرض وغیرہ جیسے کہ اسی آیت کے تحت

امام ابن کثیر فرماتے ہیں :

" وَهَذَا يَعْمُ جَمِيعَ الْأَمَانَاتِ الْوَاجِبَةِ عَلَى الْإِنْسَانِ، مِنْ حَقُوقِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، عَلَى عِبَادِهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ وَالزَّكَوَاتِ، وَالْكَفَّارَاتِ

‏وَالنُّذُورِ وَالصِّيَامِ، وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا هُوَ مُؤْتَمَنْ عَلَيْهِ لَا يَطَّلِعُ عَلَيْهِ الْعِبَادُ، وَمِنْ حُقُوقِ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ كَالْوَدَائِعِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يَأْتَمِنُونَ بِهِ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْ غَيْرِاطلاعِ بَيِّنَةٍ

‏عَلَى ذَلِكَ " 

( تفسير القرآن العظيم جلد 2 صفحه 338 المؤلف : أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى : 774هـ)، الناشر : دار طيبة للنشر والتوزيع) 

اب یہ بات انتہائی آسان ہوگئی کہ ووٹ امانت ہے یا نہیں ہے؟ اس لئے کہ امام ابن کثیر اور ان جیسے دیگر مفسرین‏کی تصریحات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امانت وہ چیز ہے جو بندہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازمی کی گئی ہو یا کسی دوسرے بندے کا حق ہو، اور ووٹ دینا تو نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر بندے پر لازمی قرار دیا گیا ہے اور نہ کسی دوسرے بندے کا حق ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے لازمی نہیں کہ ‏اسلام میں امیر کا انتخاب ہر کسی کا کام نہیں اور نہ یہ ذمہ داری ہر کسی پر عائد کی گئی ہے بلکہ جن لوگوں پر امیر اور حکمران کے انتخاب کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ان کے لئے شرائط مقرر کی گئی ہیں، جس کو بعض علماء شروط اہل الاختیار سے تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ امام ماوردی متوفی (450ھ ) اور ‏قاضی امام ابو یعلیٰ متوفی (458ھ ہر دو حضرات اپنی اپنی تصانیف " الاحکام السلطانیہ "میں رقمطراز ہیں امام ماوری فرماتے ہیں

" فَأَمَّا أَهْلُ الاخْتِيَارِ فَالشَّرُوطُ الْمُعْتَبَرَةُ فِيهِمْ ثَلَاثَةً:

أَحَدُهَا الْعَدَالَةُ الْجَامِعَةُ لِشُرُوطِهَا

وَالثَّانِي: الْعِلْمُ الَّذِي‏يُتَوَضَلُ بِهِ إِلَى مَعْرِفَةِ مَنْ يَسْتَحِقُ الْإِمَامَةَ

عَلَى الشَّرُوطِ الْمُعْتَبَرَةِ فِيهَا. وَالثَّالِثُ : الرَّأْيَ وَالْحِكْمَةُ الْمُؤَدِّيَانِ إِلَى اخْتِيَارِ مَنْ هُوَ لِلْإِمَامَةِ

أَصْلَحُ، وَبِتَدْبِيرِ الْمَصَالِحِ أَقْوَمُ وَأَعْرَفُ ... الخ "

( الاحكام ‏السلطانيه، صفحه : 17 طبع: مكتبه عمریه)

ترجمہ: کہ اہل الاختیار یعنی جو شخص امیر کا انتخاب کرے گا اس میں یہ تین شرائط ہیں : (1) کامل عدالت (2) وہ علم جس کے زریعے سے یہ پہچان سکے کہ کون اہل ہے ۔ (3) رائے اور حکمت جس کے ذریعے سے اس شخص کا انتخاب کرے جو امت کے لئے زیادہ فائدہ مند ‏ہو اور مصالح کو جاننے والا ہو۔

اسی طرح قاضی ابو یعلی نے بھی یہی تین شرائط ذکر کئے ہیں : " أما أهل الاختيار فيعتبر فيهم ثلاث شروط. أحدها: العدالة. وَالثَّانِي الْعِلْمُ الَّذِي يُتَوَضَلُ بِهِ إِلَى مَعْرِفَةِ من يستحق الإمامة. والثالث: أن يكون من أهل الرأي والتدبير المؤديين

‏إلى اختيار من هو للإمامة أصلح". (الاحكام السلطانيه ، صفحه 19 ، مطبع: دار الكتب العلميه) 

ان عبارات سے معلوم ہوا کہ ہر کوئی امیر کے انتخاب میں دخل اندازی نہیں کر سکتا بلکہ ان مذکورہ بالا شرائط کا حامل شخص ہی امیر کے انتخاب میں رائے دے سکتا ہے، ہرکس وناکس رائے نہیں دے سکتا‏بلکہ امام الحرمین متوفی (478ھ ) نے اجماع نقل کیا ہے کہ امیر کے انتخاب میں عوام ، عورت، غلام اور اہل ذمہ رائے نہیں دے سکتے ۔ ملاحظہ ہو : " فَمَا نَعْلَمُهُ قَطْعًا أَنَّ النِّسْوَةَ لَا مَدْخَلَ لَهُنَّ فِي تَخَيْرِ الْإِمَامِ وَعَقْدِ الْإِمَامَةِ، فَإِنَّهُنَّ مَا رُوجِعْنَ‏قَطُّ، وَلَوِ اسْتَشِيرَ فِي هَذَا الْأَمْرِ امْرَأَةً لَكَانَ أَحْرَى النِّسَاءِ وَأَجْدَرُهُنَّ بِهَذَا الْأَمْرِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ  ثُمَّ نِسْوَةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، وَنَحْنُ بِابْتِدَاءِ الْأَذْهَانِ‏نَعْلَمْ أَنَّهُ مَا كَانَ لَهُنَّ فِي هَذَا الْمَجَالِ مَخَاضَ فِي مُنْقَرَضِ الْعُصُورِ وَمَكَرِ الدُّهُورِ.وَكَذَلِكَ لَا يُنَاطُ هَذَا الْأَمْرُ بِالْعَبِيدِ، وَإِنْ حَوَوْا قَصَبَ السَّبْقِ فِي الْعُلُومِ. وَلَا تَعَلَّقَ لَهُ بِالْعَوَامِ الَّذِينَ لَا يُعَدُّونَ مِنَ ‏الْعُلَمَاءِ وَ ذَوِي الْأَخْلَامِ. وَلَا مَدْخَلَ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ فِي نَصْبِ الْأَئِمَةِ. فَخُرُوجُ هَؤُلَاءِ عَنْ مَنْصِبِ الْحَقِّ وَالْعَقْدِ لَيْسَ بِهِ خَفَاء"

غياث الأمم في التياث الظلم، صفحه : 245 الناشر : دار المنهاج)

اس مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ اسلام نے ‏عوام ، عورتوں اور اہلِ ذمہ پر یہ ذمہ داری سرے سے عائد ہی نہیں کی ہے کہ رائے دیں، بلکہ نہ صرف یہ کہ ذمہ داری عائد نہیں کی بلکہ ان کو یہ حق ہی نہیں دیا ہے کہ رائے دیں ، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ حق ہی نہیں دیا ہے تو پھر امانت کیسے ہوا؟ امانت تب ہوتی جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں ‏پر فرض اور لازم قرار دیا ہوتا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان پر لازمی اور ضروری ہی نہیں قرار دیا ہے بلکہ ان کو یہ حق ہی نہیں دیا ہے جیسا کہ او پر گزر چکا ، تو پھر امانت ہونے کا مطلب کیا؟! اور بندوں کی طرف سے بھی امانت اس لئے نہیں کہ عام طور پر جولوگ امیدوار ہوتے ہیں وہ فاسق و فاجر ‏ہوتے ہیں اور فاسق و فاجر کو تو منصب دینا شریعت میں منع ہے منصب والوں کی شرائط علماء نے ذکر کی ہیں، جیسا کہ امام ماوردی فرماتے ہیں:

" وَأَمَّا أَهْلُ الْإِمَامَةِ فَالشُّرُوطُ الْمُعْتَبَرَةُ فِيهِمْ سَبْعَةَ: أَحَدُهَا الْعَدَالَةُ عَلَى شُرُوطِهَا الْجَامِعَةِ. وَالثَّانِي : ‏الْعِلْمُ الْمُؤَدِّي إِلَى الاجْتِهَادِ فِي النَّوَازِلِ وَالْأَحْكَامِ. وَالثَّالِثُ : سَلَامَةُ الْحَوَاسَ مِنْ السَّمْعِ وَالْبَصَرِ وَالنِّسَانِ؛ لِيَصِحَمَعَهَا مُبَاشَرَةُ مَا يُدْرَكَ بِهَا وَالرَّابِعُ: سَلَامَةُ الْأَعْضَاءِ مِنْ نَقْصٍ يَمْنَعُ عَنِ اسْتِيفَاءِ ‏الْحَرَكَةِ وَسُرْعَةِ النُّهُوضِ. وَالْخَامِسُ الرَّأْيَ الْمُفْضِي إِلَى سِيَاسَةِ الرَّعِيَّةِ وَتَدْبِيرِ الْمَصَالِحِ.

وَالسَّادِسُ: الشَّجَاعَةُ وَالنَّجْدَةُ الْمُؤَذِيَةُ إِلَى حِمَايَةِ الْبَيْضَةِ اوَجِهَادِ الْعَدْو وَالسَّابِعُ : النَّسَبْ، وَهُوَ أَنْ يَكُونَ مِنْ ‏قُرَيْشٍ لِوُرُودِ النَّصَ فِيهِ وَانْعِقَادِ الْإِجْمَاعِ عَلَيْهِ "۔

الاحكام السلطانيه ، صفحه : 17-18 طبع: مكتبه عمریه)

ترجمہ : اہل الامامہ ( جو شخص حاکم اور امیر بن رہا ہو) میں سات شرائط ہیں :

(1): عدالت اپنے تمام شرائط کے ساتھ۔

(2): ایسا علم جو پیش آمدہ اور نوازل میں ‏اجتہاد تک رسائی کرے۔

(3):حواس ( کان، آنکھ، زبان وغیرہ ) کا صحیح و سالم ہونا۔

(4) : تمام اعضاء درست ہوں تا کہ کامل حرکت کر سکتا ہو اور جلدی اُٹھنا بیٹھنا کر سکتا ہو۔ 

(5): ذی رائے ہوتا کہ قوم و رعیت اور مصالح کے انتظام کر سکے

(6) : امیر بہادری اور شجاع ہوں تا کہ دشمن سے جہاد کر‏سکے اور اسلام کی حمایت کرے۔

(7): قریشی ہونا۔ (اگر ان میں ایسا شخص موجود ہو ورنہ غیر قریشی بھی  بن سکتا ہے ۔ )

اسی طرح آگے وزارۃ التفویض کے بارے میں لکھتے ہیں :" وَيُعْتَبَرُ فِي تَقْلِيدِ هَذِهِ الْوَزَارَةِ شُرُوطُ الْإِمَامَةِ إِلَّا النَّسَبَ وَحدَه الخ".ترجمہ: اور وزارة ‏التفویض میں بھی نسب کے علاوہ امامت کی تمام شرائط معتبر ہوں گی۔

لہذا جب شریعت نے ایک امیدوار کو منصب دینے سے روکا ہے تو اس کو ووٹ دینا امانت نہیں بلکہ خیانت ہو گا۔ لہذا ان تصریحات بالا سے معلوم ہوا کہ ووٹ کی حیثیت امانت کی بھی نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم ۔

‏ووٹر کے لئے آئین پاکستان کی رو سے شرائط:

(1): پاکستان کا شہری ہو،(2): عمر اٹھارہ سال سے کم نہ ہو۔(3): اس کا نام صابہ کے علاقے کی انتخابی فہرست میں شامل ہو۔(4) بکسی با اختیار عدالت نے اسے خرابی دماغ کا مریض قرار نہ دیا ہو۔(صفحہ : 114، ڈاکٹر صفدر محمود )

اب آپ اندازہ لگائیں کہ ‏آئین پاکستان ، ووٹ اور شریعت میں کتنا فرق ہے؟؟

خلاصه کلام :

ان تمام تر باحوالہ تفاصیل سے معلوم ہوا کہ ووٹ مغربی نظام کا ایک اہم رکن ہے اور ووٹ کا

شریعت اور اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں لہذا ووٹ کو ان تصریحات کے بعد بھی یہ حیثیتیں دینا تحریف فی الدین اور علمی خیانت ہوگی۔


حفصͣــᷤــᷫــͣــⷩــہ نͬــͦــͦــᷡــور

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے