Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

‏شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے اسفار کو کیسے کارآمد بنایا : سبق آموز



:"ہوائی جہاز کے ان لمبے لمبے سفروں کو میں تصنیف و تالیف کے ایسے کاموں میں استعمال کرتا تھا جو سفر میں انجام دیئے جاسکتے تھے ۔اس طرح ہوائی سفروں میں میرا معمول یہ رہتا تھا کہ جہاز کی پرواز کے بعد میرا زیادہ تر وقت کمپیوٹر پر کام میں گذرتا تھا ۔ سفروں کی کثرت کی وجہ سے پی آئی اے، طیران الخلیج اور امارات ائیر لائنز کے عملے کے بہت سے افراد مجھے پہچان بھی گئے تھے ۔ 

ایک مرتبہ میں لندن جانے کے لئے پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہوا ، ابھی جہاز نے اڑان نہیں بھری تھی ، اور میں اپنی سیٹ پر تھا ، تو جہاز کا ایک اسٹیورڈ ایک ائیر ہوسٹس کو ساتھ لے کر آیا ، اور اس سے کہنے لگا کہ تم کافی دن سے چاہتی ہو کہ تقی صاحب سے کچھ سوالات کرو ۔ ابھی یہ سیٹ پر خالی بیٹھے ہیں ، ان سے بات کرلو ، ورنہ جہاز کے اڑتے ہی ان کا کمپیوڑ کھل جائے گا ، اور لندن کے قریب پہنچنے تک بند نہیں ہوگا ، پھر ان سے کوئی تفصیلی بات کرنے کی فرصت نہیں ملے گی ۔ اس طرح ان سفروں میں سب سے پہلے میں نے معارف القرآن کی آٹھ جلدوں کے انگریزی ترجمے پر گہری نظر ثانی کا کام مکمل کیا ۔ یہ صرف سرسری نظر ثانی نہیں تھی ، بلکہ اس کے پیراگراف کے پیراگراف مجھے از سرِ نو لکھنے پڑتے تھے ۔ اس کام سے فراغت کے بعد میں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ خود کرنے اور اس پرمختصر تفسیری حواشی لکھنے کا کام شروع کیا ۔ اس کے لئے مجھے انگریزی کے مُروّجہ تقریبا بارہ ترجموں کو سامنے رکھنا پڑتا تھا ، لیکن چونکہ سفر میں ان سب کو کتابی شکل میں ساتھ رکھنا مشکل تھا ، اس لئے میں ان تراجم کے زیرِ تالیف حصے کو کاغذ کی چند شیٹوں پر ٹائپ کرا کر وہ کاغذ اپنے سامنے رکھتا تھا ، اور کمپیوٹر میں تمام اہم تفاسیر پہلے سے موجود تھیں ۔ پھر بھی کچھ کام مجھے کراچی پہنچ کر بھی کرنا پڑتا تھا ۔ اس طرح تقریبا تین سال میں یہ کام بفضلہ تعالی مکمل ہوگیا ، اور The Meaninngs of The Noble Quran کے نام سے شائع ہوا ۔ اور اس لحاظ سے بفضلہ تعالی بہت مقبول ہوا کہ اس کی زبان آسان ، جدید محاورات کے مطابق اور سادہ ہے ۔ یہ روایتی علماء کے کسی خوشہ چین طالب علم کی طرف سے قرآن کریم کا پہلا انگریزی ترجمہ ہے ، اور اب لندن سے بھی اعلی معیار کے ساتھ شائع ہو گیا ہے ، اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے ۔

 اس سلسلے میں ایک اور واقعہ یاد آ گیا ۔ آسٹریلیا کے ایک سفر میں جب میں سڈنی کے ائیر پورٹ پر اترا اور کسٹم آفیسر کے سامنے پہنچا ، جو بظاہر آسٹریلوی غیر مسلم تھا تو اس نے میرا سوٹ کیس کھلوایا ، اور اس میں سے کچھ کھانے کی چیز میں اور میرے پان ، چھالیہ وغیرہ کا سامان نکال کر الگ رکھ لیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ چیزیں اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ مجھے آسٹریلیا میں دس بارہ دن رکنا تھا ، اور میری پان خوری کی عادت کے لئے یہ ایک بڑا حادثہ ہوتا کہ یہ پورا عرصہ میں پان کے بغیر گذاروں ۔ اس لئے مجھے خاصی تشویش لاحق تھی ۔ اتفاق سے سوٹ کیس میں میرے انگریزی ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ بھی تھا جو میں نے اپنے کسی دوست کو دینے کے لئے رکھا تھا ۔ کسٹم آفیسر کی نظر اس پر پڑی تو اس نے پوچھا یہ کون سی کتاب ہے ؟ میں نے بتایا کہ یہ قرآن کریم کا ترجمہ ہے ، اس نے پوچھا کہ یہ کس نے لکھا ہے ۔ میں نے جواب دیا کہ یہ میرا ہی لکھا ہوا ہے ۔ اب وہ کبھی مجھے اور کبھی کتاب کو دیکھنے لگا ۔ پھر اسے اٹھا کر تھوڑا بہت پڑھا ۔ پھر اس نے پوچھا کہ " آپ نے یہ کتنے دن میں لکھا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ " تقریبا تین سال میں اس نے ایک بار پھر حیرت کا اظہار کیا ، اور پھر کتاب اٹھا کر اپنے برابر ایک اور کسٹم آفیسر کے پاس لے گیا ، اور اس سے کہا کہ دیکھو ، یہ قرآن پاک کا ترجمہ ہے اور اس کا لکھنے والا یہاں میرے پاس کھڑا ہے ، اس سے آ کر ملو ۔ وہ بھی آ کر ملا ، اور اس نے بھی بڑی عزت و تکریم کا معاملہ کیا ۔ پھر اس نے سوٹ کیس سے جو چیزیں ضبط کرنے کے لئے نکال کر رکھی ہیں ، وہ ایک ایک کر کے دوبارہ سوٹ کیس میں قاعدے سے رکھیں ، اور سوٹ کیس بند کر کے مجھ سے معذرت کی اور کہا کہ میں خود آپ کو باہر آپ کے میز بانوں تک چھوڑ کر آؤں گا ۔ میں نے منع بھی کیا لیکن وہ نہ مانا اور کہا کہ آپ کو راستہ تلاش کرنے میں دقت نہ ہو ، اس لئے میں آپ کے ساتھ چلوں گا ۔ یہ کہہ کر وہ پورے اعزاز کے ساتھ مجھے باہر تک لایا اور میرے میزبانوں کے حوالے کیا ۔

 انگریزی ترجمے کے بعد میں نے " آسان ترجمہ قرآن " کے نام سے اردو ترجمہ لکھنا شروع کیا ، تو اس کا بھی بہت بڑا حصہ سفروں کے درمیان لکھا گیا ، اور اس میں بھی دوسرے تراجم میں نے اسی طرح ساتھ رکھے جس طرح انگریزی ترجمے ساتھ رکھے تھے ۔ خلاصہ یہ کہ تقریبا دس بارہ سال کے سفر اس طرح گذرے۔ 

(مفتی محمد تقی عثمانی، ماہنامہ "البلاغ" کراچی ۔ شمارہ ذوالحجہ۔1443ھ، مضمون "یادیں" قسط 56)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے