Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

عظمت رفتہ کا حصول علماء دین کی اطاعت ہی سے ممکن ہے: مولانا ابوالکلام آزاد



  انوار الحق قاسمی دیوبندی

(ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال)

    علماء دین کا مقام،بلند تر ہے ؛کیوں کہ یہی ہیں،اس نبی امی کے علوم کے سچے وارثین وجانشیں،جنھیں خدائے -وحدہ لاشریک لہ -نے اس کرہ ارضی کے ہر فرد بشر کی خاطر ہدایت و رہبری کے لیے پیغام بر بنا کر بھیجاہے۔

   نبی امی کے  مقام کے مقابلے کسی کا کوئی خاص مقام نہیں؛کیوں کہ اللہ کے یہاں سب سے محبوب اور سب سے قریب تر نبی،نبی امی ہی ہیں؛ اس لیے ان کا مقام،اعلیٰ و ارفع ہے۔

  اور یہ سب جانتے ہیں کہ جس پایہ کا مورث ہوتاہے،اسی پایہ کا وارث بھی ہوتاہے،چوں کہ مورث(نبی امی) کا مقام ومرتبہ اعلیٰ و ارفع ہے،تو بھلا وارث کا مقام کیوں کر بلند نہ ہو؟

  علماء دین کا یہی(نبی امی کے علوم و معارف کا وارث ہونا)وہ بلند ترین مقام ہے،جسے دنیا پرست افراد ہضم نہیں کر پاتے ہیں؛جس کی بناء وہ، انھیں کوتاہ نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان پر اپنی برتری ثابت کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے رہتے ہیں؛گرچہ بظاہر ان دنیا پرستوں کو اپنی نظروں میں اپنا مقام ، ان سے برتر معلوم ہوتے ہوں گے،مگر حقیقت یہ ہے کہ علماء دین کا مقام ہی  بلند تر ہے۔

   اسی تناظر میں مولانا ابوالکلام آزاد کی اہم ترین تحریر پیش خدمت ہے: علماء دین،وہ ہیں،جنھوں نے فقر وفاقہ کو ہمیشہ اپنی دولت سمجھا ہے ،زہد و تقویٰ کو اپنی اقلیم استغنا کا تاج و تخت بنایا ۔ بے نیازی وبے مرادی کے لازوال خزانوں پر ہمیشہ قانع رہے اور عشق حق اور پرستاری علم بوریائے کہنہ پر بیٹھ کر دنیا اور دنیا کی ساری عظمتوں سے بے پروارہے ؛لیکن یایں ہمہ جن کے کبر حق اور سطوت الٰہی کا یہ عالم رہاکہ شاہان عالم نے ان کے پھٹے پرانے دامنوں پر عقیدت و اطاعت کی آنکھوں ملیں اور تاج و تخت اور حکومت کو ہمیشہ ان کے پائے استقامت کی ٹھوکریں نصیب ہوئیں ۔ انھوں نے اللہ کی چوکھٹ پر سرنیاز جھکاکر تمام کرہ ارضی کی عظمتوں اور رفعتوں کو اپنے سامنے سرنگوں کردیا۔

  یہ سچ ہے کہ آج خود اپنی ہی غفلت و خود فراموشی کی بدولت اپنی وہ رفعت وعظمت الٰہی کھوچکے ہیں اور اب ان کی عظمت و جلال کی حقیقت بھی تاریخ ماضی کا ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے،خدانے ان کو جس منصبِ عظیم وجلیل پر سرفراز فرمایا تھا،اس کی قدر انھوں نے نہ پہچانی اور خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے شرف عزت کا خلعت پارہ پارہ کردیا۔

  خدانے دنیا کو ان کے سامنے گرایاتھا،لیکن افسوس ہے کہ یہ خود دنیا کے سامنے گرگئے۔ خدانے انھیں  صرف اپنی ہی چوکھٹ پر جھکایا تھا،لیکن انھوں نے انسانوں کی چوکھٹوں پر جببہ سائی کی۔ جب اللہ اور اس کے کلمہ حق کی خدمت کی جانب سے ان کے دل غافل ہوگئے،تو دنیا نے بھی ان کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں ۔ بلا شبہ یہ ایک حقیقت ہے ،لیکن اے نظارہ گیان مجلس ! خواہ زمانے کے انقلابات و حوادث نے انھیں کتنا ہی حقیر و بے مرتبت بنا دیاہو،لیکن خدارا، آپ انھیں چشم حقارت سے نہ دیکھیں!!یہی ہیں ،جنھوں نے اسی دنیا میں خدا کے رسولوں کی نیابت کی ہے۔ یہی ہیں،جو ان کی وراثت کے حق دار ٹھہرے ہیں ۔ یہی ہیں،جن کے ہاتھوں میں امت مرحومہ اور خیرالامم کی قیادت و ہدایت کی باگ رہی ہے۔ یہی ہیں،جو آج تیرہ سو برس سے خدا کی زمین پر اس کے کلمہ حق کی حفاظت کر رہے ہیں۔ یہی ہیں،جن کی عظمت لازوال کے نقوش صفحہ عالم پر ثبت ہیں۔ اور جن کی ہیبت و سطوت کے افسانے آج تک زبان تاریخ پر جاری ہیں اور پھر یاد رکھیے! کہ یہی ہیں،جو باوجود اپنی تمام کوتاہیوں اور درماندگیوں کے اب بھی آپ کی قسمت کے مالک اور آپ کی سعادت و شقاوت کی باگ اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں۔ آپ کو اگر زندگی مل سکتی ہے،تو انہی کے ہاتھوں سے؛اور اگر آپ اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں،تو صرف انھیں کی اطاعت و پیروی سے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے