Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

*اتر پردیش کے مسلمان ماضی کی غلطی نہ دہرائیں ،*



 *مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی* 

23/ 1/2022


 *اتر پردیش اسمبلی انتخابات دوہزار بائیس  کے پہلے مرحلے کے انتخابات کے پیش نظر چند تاثرات و گذارشات* 


فسادات کا نقصان ہمیشہ مسلمانوں کو زیادہ ہوتا ہے 

فرقہ پرست  فسادات کرکے بہت حد تک یا ایک حد تک ہندؤوں کو  اپنے حق میں متحد کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، اور مسلمان سیکولر حکمراں جماعت سے نالاں ، 

فسادات کے بعد جب الیکشن ہوتا ہے ، تو ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد  متحد ہوکر فرقہ پرستوں کو ووٹ دیتی ہے ، اور مسلمان یا تو ووٹ ہی نہیں دیتے ، یا پھر وہ سیکولر پارٹیوں اور فرقہ پرست پارٹیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں ، 

دو ہزار تیرہ میں فرقہ پرستوں نے فسادات کروائے ، صدیوں پرانی جاٹ مسلم دوستی تاش کے پتے کی طرح بکھر گئی ، ہندو جاٹ پوری طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی بن گئے ، 

مسلمان سماج وادی پارٹی سے اس لیے ناراض ہوگئے کہ وہ فسادات روکنے میں ناکام ہوگئے تھے ، 

مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ وہ فسادات کرانے والوں اور ان کے مقاصد کو پہچانتے ، 

اتر پردیش کے مسلمانوں خاص طور سے مغربی اتر پردیش کے مسلمانوں نے سیاسی بصیرت کا ثبوت نہیں دیا اور سماج وادی پارٹی کو متحد ہوکر ووٹ نہیں دیا ، 

جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھاری اکثریت سے بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آگئی ، 

اور مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد سڑسٹھ سے گھٹ کر پچیس ہوگئی ، 

اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی نشستیں سینتالیس سے بڑھ کر تین سو بارہ ہوگئیں ، 

بھارتیہ جنتا پارٹی کو دو سو پینسٹھ نشستوں کا فائدہ ہوا

اور سماج وادی پارٹی کی سیٹیں دو سو چوبیس سے گھٹ کر سینتالیس ہوگئیں ، اور سماج وادی پارٹی کو ایک سو ستہتر نشستوں کا نقصان ہوا ، 


دس فروری دو ہزار بائیس کا انتخاب  

مغربی اتر پردیش کے مسلمانوں سے گذارش ہےکہ وہ دس فروری دو ہزار بائیس کو ووٹ ڈالنے کے وقت دوہزار سترہ والی غلطی نہ دہرائیں ،  

مغربی اتر پردیش کے جن گیارہ  اضلاع کے انٹھاون نشستوں پر  دس فروری دوہزار بائیس کو  اسمبلی انتخابات ہیں،

  دو ہزار سترہ میں ان انٹھاون نشستوں میں  سے چون  نشستیں  بھارتیہ جنتا پارٹی کو ، اور  دو دو نشستیں سماج وادی پارٹی ،اور بہوجن سماج پارٹی کو ملی تھیں  ،  

جن اضلاع میں دس فروری کو انتخابات ہورہے ہیں ،ان میں سے علی گڑھ ، متھرا اور آگرہ کو کبھی مغربی اترپردیش میں تو کبھی برج علاقے اور روہیل کھنڈ میں شمار کیا جاتا ہے ،


اتر پردیش کے علاقے 

سیاسی اعتبار سے اتر پردیش کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ، 


1- مغربی اتر پردیش ، اس علاقے میں چھہتر اسمبلی حلقے ہیں ،

2- روہیل کھنڈ ، مغربی اترپردیش سے مشرق میں واقع بریلی اور بدایوں اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو روہیل کھنڈ کہا جاتا ہے ، اس علاقے میں کل باون اسمبلی نشستیں ہیں ،


3- سینٹرل اتر پردیش ،

 روہیل کھنڈ سے مشرق میں واقع کانپور اور لکھنؤ وغیرہ کے علاقے کو سینٹرل اتر پردیش کہا جاتا ہے ،  یہاں چونسٹھ نشستیں ہیں ،


4- اودھ ،

سینٹرل اتر پردیش ،  سے مشرق میں واقع فیض آباد وغیرہ  کے علاقے کو اودھ کہا جاتا ہے ،     یہاں نوے  نشستیں ہیں ،


5- بندیل کھنڈ ، 

سینٹرل اتر پردیش سے جنوب  میں واقع باندہ  اور جھانسی وغیرہ کے علاقے کو بندیل کھنڈ ، کہا جاتا ہے ،  یہاں انیس  نشستیں ہیں ،


6- مشرقی اتر پردیش

اودھ سے مشرق میں واقع وارانسی ، اعظم گڑھ اور گورکھپور  وغیرہ  کے علاقے کو مشرقی اتر پردیش اور پروانچل کہا جاتا ہے ،     یہاں ایک سو دو   نشستیں ہیں ،



مغربی یوپی کے پندرہ اضلاع میں کل ستہتر اسمبلی نشستیں ہیں ، جن میں سے ساٹھ نشستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی ، بقیہ سترہ میں سے پندرہ پر سماج وادی پارٹی کے اور ایک ایک بہوجن سماج پارٹی کے اور انڈین نیشنل کانگریس کے  امیدوار کامیاب ہوئے تھے ، 

  اور صرف  نو نشستوں پر مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے ، سات پر سماج وادی پارٹی کے اور ایک ایک پر بہوجن سماج پارٹی کے اور انڈین نیشنل کانگریس کے ، 



جن اضلاع میں دس فروری کو انتخاب ہے ، ان کے متعلق یہ اہم باتیں یاد رکھیں ،

1- مظفر نگر ، اکتالیس اعشاریہ تیس فیصد (41.30)

تمام چھ اسمبلی نشستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی ،

فسادات مظفر نگر میں ہوئے تھے ، اس لیے مکمل نقصان بھی مظفر نگر کے مسلمانوں کو جھیلنا پڑا ،

کم از کم دو نشستیں مسلمانوں کاحق ہے ، 


2- شاملی ضلع بھی مظفر نگر کا حصہ تھا ، وہاں تین اسمبلی نشستیں ہیں ، دو پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی ، اور ایک پر سماج وادی پارٹی کے مسلم امیدوار ناہید حسن کامیاب ہوئے تھے ،


3- میرٹھ ، مغربی یوپی ، چونتیس اعشاریہ تینتالیس ، (34.43%)

کل اسمبلی نشستیں : سات 

چھ  پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی ،

ایک پر سماج وادی پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے  ، میرٹھ سٹی  سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار حاجی رفیق انصاری  کامیاب ہوئے تھے،

کم از کم دو نشستیں مسلمانوں کاحق ہیں ، 


4- باغپت ، مغربی یوپی ، ستائیس اعشاریہ انٹھانوے فیصد (27.98%)

کل اسمبلی نشستیں : تین 

تینوں  پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی  ،

ایک نشست مسلمانوں کا حق ہے ،


5- غازی آباد ، مغربی یوپی ، پچیس اعشاریہ پینتیس  (25.35%)

کل اسمبلی نشستیں : پانچ 

پانچوں  پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی ،


6- بلند شہر ، مغربی یوپی ،بائیس اعشاریہ اکسٹھ (22.61٪)

کل اسمبلی نشستیں : سات 

ساتوں  پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی ،


7- ہاپور، / ہاپڑ

ہاپور  غازی 

کل اسمبلی نشستیں : تین 

دو  پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی

ایک پر  بہوجن سماج  پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے  ، دھولانہ  سے  بہوجن سماج  پارٹی کے امیدوار اسلم چودھری  کامیاب ہوئے تھے، اب وہ سماج وادی میں ہیں ،

ہاپور نیا ضلع ہے ، میرٹھ اور غازی آباد کے بعض حصوں کو کاٹ کر بنایا گیا ہے ،


8-گوتم بدھا نگر گوتم بدھ نگر ،مغربی یوپی ، تیرہ اعشاریہ آٹھ ، (13.08٪)

کل اسمبلی نشستیں : تین  

تینوں  پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی


9-  ، علی گڑھ ، مغربی یوپی ، انیس اعشاریہ پچاسی  (19.85٪)

کل اسمبلی نشستیں : سات 

ساتوں  پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی


10- متھرا ،مغربی یوپی ، آٹھ  اعشاریہ باون  ، (8.52٪)

کل اسمبلی نشستیں : پانچ 

 

چار نشستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی

صرف مانٹ اسمبلی نشست سے بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے ، 


11- آگرہ ،

مغربی یوپی ، نو  اعشاریہ اکتیس، (9.31٪)

کل اسمبلی نشستیں : سات 

 ساتوں نشستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی تھی


مسلم  ووٹروں کی طاقت 

ایک اندازے کے مطابق ان اضلاع میں مجموعی طور پر بتیس فیصد مسلمان  اور اٹھارہ فیصد مسلمان ہیں ، 

دو ہزار اٹھارہ میں فرقہ پرستوں نے جاٹ مسلم اتحاد کو ختم کرکے شاندار کامیابی حاصل کی تھی ، 

مسلمان اپنی طاقت کو پہچانیں اور جاٹوں اور کسانوں کے ساتھ مل کر ظالم حکومت کو اکھاڑ پھینکیں ،


رائے دہندگان سے گذارش 

1- جذباتی باتوں پر دھیان نہ دیں ، 

2- چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو اپنا ووٹ ڈال کر اپنا ووٹ ضائع نہ کریں ،

3- سماج وادی پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے امیدواروں میں سے جو بہتر ہو اس کو ووٹ کریں ، 

4-  اسمبلی میں مسلم نمائندگی کو بڑھانے کی فکر کریں ، 

5- کسی بھی حال میں فرقہ پرستوں کو کامیاب نہ ہونے دیں ، 

یہ یاد رکھیں کہ دوبارہ کامیاب ہو نے کے بعد مودی جی نے کیسے کیسے ظالمانہ قوانین بنائے ، 

مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے ظالمانہ قوانین کو انہوں نے اب تک واپس نہیں لیا ہے ، 

کسانوں کو بھی اس ظالم حکومت نے بہت ستایا ہے ، 

آسام کے مسلمانوں کی حالت بھی یاد رکھیں ، وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کیسے کیسے ظلم کر رہی ہے ،

اگر امن و سکون اور خوشی اور اطمینان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو متحد ہو کر سماج وادی پارٹی یا کانگریس کو ووٹ دیجیے ، اور بھارت کو مضبوط کیجیے ،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے