Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

تذکرہ شہیدِ روڑکی مولانا شاہ رمضان شہید روڑکوی کا


ء؁1818 میں سید احمد شہید نے سہارن پور اور اس کے اطراف کا دعوتی دورہ کیا تھا اور اس دورہ کا اصل مقصد لوگوں کو راہ راست پر لا کر جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار کرنا تھا سید احمد شہید کا قیام جس وقت سہارن پور تھا تو مولوی شاہ رمضان روڑکی نے سید صاحب سے ملاقات کی اور ان کے ہاتھ پر بیعت فرمائی سید احمد شہید نے مولوی شاہ رمضان کو خلافت سے نوازا تاکہ وہ اطراف وجوانب کے دیہات میں تعلیم و نصیحت کے لئے دورہ کریں۔                          

*مولوی شاہ رمضان صاحب کا دعوتی دورہ*

مولوی رمضان نے خلافت سے نوازے جانے کے بعد دعوتی پروگرام کے تحت موضع چاٹکا کا رخ کیا اور چاٹکے کی مسجد میں وعظ شروع کیا جو تین دن تک جاری رہا، مسجد کے قریب ایک غیر مسلم رہتا تھا،  اس کا نوجوان لڑکا مولانا کے وعظ کو پابندی سے سنتا تھا، مولانا کے وعظ کا اس لڑکے پر ایسااثر ہوا کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوگیا، مولانا رمضان نے اس لڑکے کو ایک مقامی صاحب کے ہمراہ سہارن پور سید صاحب کی خدمت میں بھیج دیا جہان اس نے مولانا رضان کے وعظ سے متأثر ہوکر سید احمد شہید کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ سید صاحب نے اس نومسلم لڑکے کا نام اپنے نام پر احمد ہی رکھا۔

*مولوی رمضان کی جہاد میں شرکت:*

جس وقت سید احمد شہید سرحد کے علاقہ میں جہاد کے لئے تشریف لے گئے تو 1242ھ میں سرحد کے سرداروں نے سید صاحب کے ہاتھ پر بیعتِ امامت کی،  بیعت امامت کے بعد جنگ شدید ہوگئی،  لیکن اس جنگ میں یار محمد خان نے دھوکہ دیا اور موقع جنگ سے راہ فرار اختیار کی مزید سید صاحب کو کھانے میں زہر دے کر مارنے کی کوشش بھی کی؛  لیکن سید صاحب اللہ کے فضل سے اس کے شر سے محفوظ رہے،  سید صاحب کا قیام ابھی بستی بانڈہ میں تھا جوکہ موجودہ پاکستان کے مینگورے کا دیہی علاقہ ہے اسی دوران مولوی شاہ رمضان روڑکی ایک سو آدمیوں کا قافلہ لے کر آئے اور سید صاحب کے قافلہء جہاد میں شریک ہوگئے۔

*مولوی رمضان کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر ہونا۔*

سید صاحب نے سرحدی علاقہ میں اپنی بیعت امامت کے بعد اسلامی حکومت اور قانون اسلامی نافذ کردیا تھا اس نظام کے نفاذ کے لئے سید صاحب نے ہر علاقے کا الگ الگ قاضی مقرر کیا تھا اور زکوٰة، عشر اور جزیہ کی وصولیابی کے لئے محصل مقرر کئے تھے، لیکن ان عاملوں نے عوام پر عشر و جزیہ کی وصولیابی میں تعدی اور ظلم وزیادتی شروع کردی تھی جس کی شکایت عوام نے مولانا خیر الدین صاحب سے کی مولانا نے پورا معاملہ سید صاحب سے بیان کیا تو سید صاحب نے مولانا خیر الدین سے فرمایا کہ ہم پنجتار پہنچنے کے بعد آپ کو قاضی القضاۃ مقرر کردیں گے، مولانا خیر الدین نے عرض کیا کہ مجھ کو دو کاموں کے لئے مجبور نہ کریں!  ایک نظام عدالت دوسرے نظام اموال؛ کیونکہ اکثر لوگوں کے قدم ان معاملات میں پھسل جاتے ہیں۔ جب سید صاحب مجاہدین کے اصل مرکز پنجتار تشریف لائے تو آپ نے مولوی شاہ رمضان کو قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا عہدہ دیا اور چند غازیوں کے ساتھ آپ کو موضع شیوہ روانہ کیا اور ہدایت دی کہ آپ پورے علاقے کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ عاملین وقضاۃ کہاں کہاں ظلم وتعدی کر رہے ہیں۔ ان کو ظلم وتعدی سے باز رکھا جائے۔

*مولوی شاہ رمضان رڑکی کی شہادت*

پشاور میں سلطان محمد خان کو سید صاحب نے حکومت سپرد کی تھی، لیکن تھوڑی مدت کے بعد سلطان محمد خان بغاوت پر اتر آیا اور اس نے علاقے کے تمام سرداروں کو بغاوت پر آمادہ کرلیا اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ ہمارے علاقہ میں سید صاحب کے جتنے عاملین قضاۃ اور غازی ہیں سب کو ایک دن قتل کردیا جائے،  پشاور والوں نے وقت مقررہ سے دو دن قبل ہی غازیوں کو گھیر کر قتل کردیا،  اس کے بعد تمام علاقہ کے لوگوں نے غازیوں کو گھیر کر قتل کرنا شروع کردیا، جب بلوائیوں نے غازیوں کو قتل کرنا شروع کیا تو آس پاس کے تمام غازی موضع شیوہ میں مولوی شاہ رمضان کے پاس جمع ہوگئے،  آنند خان اور مشکار خان مولوی شاہ رمضان صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگےکہ آپ کسی بات کا اندیشہ نہ کریں جب تک ہم زندہ ہیں کسی کی کیا ہمت کہ آپ پر ہاتھ ڈالے، مولوی رمضان صاحب نے فرمایا:  بھائی جزاکم اللہ..!  مگر اس وقت ہم اللہ کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہیں جانتے اور فرمایا کہ آپ تشریف لے جائیں جو ہم پر چڑھ کر آئے گا ہم دیکھ لیں گے۔ اسی عرصے میں بلوائیوں نے آکر ہر طرف سے گھیر لیا تو مولوی شاہ رمضان رڑکی اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ نکلے اور بلوائیوں سے مقابلہ کیا اور ہنگامہ میں تمام غازیوں کے ساتھ مولوی شاہ رمضان روڑکی بھی شہید ہوگئے اور اپنی مراد شہادت کو پالیا۔

مولوی شاہ رمضان روڑکی شہید کی شخصیت ہماری تاریخ کا روشن ستارہ ہے، جس کو ہم نے گمنام کرکے اپنی تاریخی یاد داشت کے ساتھ ناانصافی کی ہے، کیا ان شخصیات کے حالات وکارناموں کو یاد کرنے اور اپنی نسل کو اپنے اسلاف کے حالات و واقعات سے واقف کرانے کی ضرورت نہیں ہے؟ 

قومیں اپنے ماضی کی روشنی سے اپنے مستقبل کو تابناک کرتی ہیں اور جو قوم اپنے ماضی کو بھلا دیتی ہے اس  کامستقبل بھی تاریکی کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔

مفتی توفیق الٰہی ہریدواری
استاذ عربی: جامعہ عربیہ مدرسۃ المؤمنین منگلور

شائع کردہ: صدائے حق نیوز
www.sqnews.in
..................................................

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے