از: توفیق الٰہی، ہریدوار
اتراکھنڈ میں مدارسِ اسلامیہ کے خلاف کی جانے والی حکومتی کارروائی نے ملتِ اسلامیہ ہندیہ کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ریاستی حکومت نے جنوری 2025 سے اب تک 214 مدارس کو بغیر کسی قانونی ضابطے اور اصولی کارروائی کے محض اس بنیاد پر سیل کر دیا کہ وہ مدارس اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ نہیں ہیں، حالانکہ ان میں سے بیشتر تعلیمی مراکز صرف "مکتب" کے طور پر دینی تعلیم دے رہے تھے، جن پر بورڈ سے منظوری لازم نہیں۔
اسی پس منظر میں، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے حالیہ اجلاس میں اس حساس موضوع پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا گیا، بلکہ ایک مفصل رپورٹ اور زمینی سطح پر کی گئی قانونی کارروائیوں کی روداد بھی پیش کی گئی۔
مجلس شوریٰ کی تجویز پر حضرت مولانا سید ارشد مدنی (صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) نے اتراکھنڈ کے اُن ذمہ دار حضرات کو مدعو فرمایا جو عملی طور پر مدارس کے تحفظ اور قانونی چارہ جوئی میں مصروف ہیں۔ اس دعوت پر حضرت مولانا شرافت علی قاسمی صاحب (ناظم، دارالعلوم اسعدیہ، ایکڑ خورد) کی قیادت میں ایک چار رکنی وفد دیوبند پہنچا، جس میں مولانا عبد الواحد، مولانا ہارون کلیری اور راقم الحروف شامل تھے۔
عصر کی نماز قدیم مسجد میں ادا کرنے کے بعد حضرت مولانا مدنی نے خود فون پر وفد کو دارالعلوم کے مہمان خانہ میں بلایا، جہاں مجلس شوریٰ کا اجلاس جاری تھا۔ واضح رہے کہ اجلاس کے دوران عام مہمانوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے، مگر حضرت مدنی نے خصوصی اجازت دی۔
مجلس شوریٰ میں مدارس کی صورتحال پر گفتگو
وفد کو شوریٰ کے ہال میں طلب کیا گیا جہاں حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند) نے وفد کا مختصر تعارف کرایا اور استفسار کیا کہ مدارس کو کن بنیادوں پر سیل کیا گیا۔
وفد کے ترجمان مولانا شرافت علی قاسمی صاحب نے تحریری نکات کی روشنی میں پوری تفصیل مجلس شوریٰ کے سامنے رکھی:
اب تک اتراکھنڈ کے مختلف اضلاع: دہرادون، ہریدوار، ادھم سنگھ نگر، ہلدوانی، رام نگر وغیرہ میں 214 مدارس کو سیل کیا گیا۔
سیل کی وجہ صرف یہ بتائی گئی کہ وہ مدارس بورڈ سے منظور شدہ نہیں ہیں، حالانکہ "مکاتب" پر منظوری کی شرط لاگو ہی نہیں ہوتی۔
جمعیۃ علماء ہند کی سرپرستی اور حضرت مولانا ارشد مدنی کی رہنمائی میں ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، تاہم بعض افراد کی جلد بازی اور ناقص دلیل کی بنیاد پر وہاں سے رٹ خارج ہوگئی اور عدالت نے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔
ہم نے اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ سے تحریری طور پر معلومات حاصل کیں جن میں واضح کیا گیا کہ "مدارس کو منظوری لازم ہے، مکاتب کو نہیں"۔
پھر ماہر وکلاء کی مشاورت سے ہم نے ہائی کورٹ نینی تال میں رٹ دائر کی، جس پر عدالت نے عبوری راحت دیتے ہوئے تقریباً 50 مکاتب کو دوبارہ کھولنے کا حکم جاری کیا۔
دستاویزات کی پیشکش اور مزید قانونی اقدامات
مجلس شوریٰ کے رکن حضرت مولانا محمود مدنی صاحب نے اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ کے تحریری جواب اور حکومتی نوٹسز کا مطالبہ کیا، جس پر وفد نے پہلے سے تیار شدہ فوٹو کاپیاں پیش کر دیں۔
مزید یہ کہ مولانا شرافت صاحب نے شوریٰ کو اطلاع دی کہ حضرت مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر ایک نئی رٹ پٹیشن اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں تمام متاثرہ مدارس کی جانب سے داخل کی جا چکی ہے، جس پر جمعہ کو سماعت متوقع ہے۔
گفتگو کے دوران شوریٰ کے بعض اراکین نے سوالات بھی کیے، جن کے تسلی بخش جوابات وفد نے فراہم کیے۔ آخر میں تمام اراکین نے وفد کی کوششوں کو سراہا، ان کی حوصلہ افزائی کی اور دعا دی کہ یہ جدوجہد بارآور ثابت ہو۔
0 تبصرے