ایک بے مثال قومی کردار، جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا
یہ خبر کچھ روز پہلے کی ہے، مگر اس وقت اس پر قلم اٹھانا اس لیے ضروری محسوس ہوا کہ ہمارے کچھ سیاست دان صرف ایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ انہیں ہر منظر میں صرف ہندو نظر آتا ہے، لیکن اسی کے پہلو میں کھڑا اُس کا وطنی بھائی مسلمان دکھائی نہیں دیتا۔
گزشتہ روز خان پور کے رکن اسمبلی جناب امیش شرما نے اپنی فیس بک پوسٹ میں محترمہ اقراء حسن کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے یہ شکوہ کیا کہ جب ہندو لڑکیوں پر ظلم ہوتا ہے تو مسلمان علما اور قائدین خاموش رہتے ہیں، اور یہی خاموشی انہیں "گنگا جمنی تہذیب" کے تصور کو کھوکھلا محسوس ہونے کا سبب بنتی ہے۔
انہوں نے اس کے بعد مسلمانوں پر کیے گئے چند "احسانات" گنائے — کہ انہوں نے غریب مسلم بچیوں کے نکاح کرائے، نمازیوں پر پھول برسائے، اور حضرت شیخ علاء الدین علی احمد صابر کلیریؒ کے مزار پر حاضری دی۔
حالانکہ جناب امیش شرما صاحب عوامی نمائندے ہیں، کسی ایک مذہب کے ترجمان نہیں۔ انہوں نے حلف دستورِ ہند پر لیا ہے، کسی مذہبی صحیفے پر نہیں۔ چنانچہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ہندوستانی شہری کے حق میں آواز بلند کریں۔ اسی اعتماد کے ساتھ تمام طبقات نے، خصوصاً مسلمانوں نے، ان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
محترم رکن مقننہ کی خدمت میں عرض ہے کہ ہندوستان کی 36 سالہ ہندو لڑکی نشما پریا، جس پر یمن میں اپنے کاروباری شریک — مسلم نوجوان طلال عبدہ مہدی — کو نہایت بے دردی سے قتل کرنے کا الزام تھا، اور جس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پانی کے ٹینک میں چھپائے گئے تھے، اس پر یمن کی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔
اس سزا کو رکوانے میں حکومت ہند مکمل طور پر ناکام رہی۔ سپریم کورٹ میں داخل جواب میں کہا گیا کہ چونکہ یمن سے ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں، لہٰذا ہم اس کیس میں کوئی مؤثر مداخلت نہیں کر سکتے۔
جب تمام سیاسی، سفارتی اور قانونی ذرائع ناکام ہو چکے تھے، تب ایک مسلمان عالم دین — شیخ ابوبکر احمد مسلیار — اور ایک کاروباری شخصیت — بھائی یوسف علی (مالک، لولو گروپ) — نے خضر حیات بن کر اس ہندو بیٹی کی جان بچانے کا بیڑا اٹھایا۔
شیخ ابوبکر، جو ایک مسلم مقتول کی ہم مذہب حیثیت رکھتے تھے، نے اس کی حمایت کے بجائے اپنی وطنی بیٹی نشما پریا کی حمایت کی اور اپنے ذاتی تعلقات و اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اس کی جان بخشی کی سبیل نکالی۔
بھائی یوسف نے مقتول کے اہل خانہ کو دیت قبول کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کی، اور اعلان کیا کہ وہ دیت کی مکمل رقم اپنی طرف سے ادا کریں گے — چاہے وہ جتنی بھی ہو۔
یہ اعلان محض زبانی یا فیس بک کی حد تک نہ تھا، بلکہ وہ اس سے قبل بھی ایسا کر چکے ہیں۔ 2012 میں ابوظہبی میں ایک سوڈانی بچے کو ایک کیرالا کے کرشن نامی ہندو ڈرائیور نے حادثاتی طور پر کچل دیا تھا، جس میں بچہ جاں بحق ہو گیا۔ اُس وقت بھی بھائی یوسف نے مقتول کے لواحقین کو کروڑوں روپے کی دیت دے کر معاف کروایا تھا اور کرشن کی جان بچائی تھی۔
شیخ ابوبکر نے اپنے مذہب سے بالاتر ہو کر، ایک وطنی بیٹی کی جان بچانے میں کردار ادا کیا۔ بھائی یوسف نے بھی مذہبی وابستگی سے بڑھ کر وطنی محبت کو ترجیح دی۔
محترم امیش شرما صاحب!
مسلمان علما اور عوام صرف سوشل میڈیا پر نہیں، بلکہ زمینی سطح پر بھی کام کرتے ہیں۔ وہ ہر بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھتے ہیں۔ نہ احسان جتاتے ہیں، نہ طعنہ دیتے ہیں — کیونکہ اسلام ہمیں احسان کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور احسان جتانے سے منع کرتا ہے۔
_____
0 تبصرے