محمد ادریس پھلتی
حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے لکھنو جیل میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ ایک طرف دلوں میں ان سے ملاقات کی شدید خواہش تھی تو دوسری جانب ان حالات کا تصور تھا جن میں وہ اس وقت زندگی گزار رہے ہیں۔ جیل کے آہنی دروازوں کے پیچھے ایک عالم دین اور مصلح کو دیکھنا یقیناً ایک تکلیف دہ منظر تھا۔
ملاقات کا وقت مقررہ تھا اور جب ہمیں ان سے ملنے کی اجازت ملی تو ایک عجیب سا سکوت طاری تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی مولانا کی پرنور شخصیت نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ ان کے چہرے پر ایک اطمینان اور صبر کا گہرا رنگ نمایاں تھا جو ان مشکل حالات کے باوجود ان کے مضبوط ایمان کی گواہی دے رہا تھا۔
ہم نے ان سے ان کی خیریت دریافت کی اور ان کی صحت کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنے حوصلے کو بلند بتایا۔ ان کی باتوں میں کوئی شکوہ یا شکایت نہیں تھی بلکہ ایک عزم اور یقین کی کیفیت تھی۔ انہوں نے موجودہ حالات پر بھی گفتگو کی اور امت مسلمہ کو صبر اور استقامت کی تلقین کی۔ ان کے الفاظ میں حکمت اور دانائی کا ایک سمندر موجزن تھا۔
حضرت نے جیل کے اندر اپنے شب و روز کے معمولات کے بارے میں بھی بتایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت تلاوت قرآن، ذکر و اذکار اور مطالعہ کتب میں گزارتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انسان کو ہر حال میں اللہ سے اپنا تعلق مضبوط رکھنا چاہیے اور مصائب کو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش سمجھ کر صبر کرنا چاہیے۔
ہم نے حضرت مولانا کو اپنے نیک خواہشات اور دعاؤں سے آگاہ کیا اور انہیں یقین دلایا کہ پوری امت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اور انشاءاللہ وہ جلد ہی ہم سب کے درمیان ہوں گے۔
ملاقات کے اختتام پر حضرت مولانا نے ہم سب کے لیے خصوصی دعا فرمائی اور ہمیں اللہ پر بھروسہ رکھنے اور حق پر ثابت قدم رہنے کی نصیحت کی۔ ان سے مل کر ہمارے دلوں کو ایک سکون اور اطمینان نصیب ہوا اور یہ یقین مزید پختہ ہوا کہ حق کی فتح ضرور ہوتی ہے۔
یہ ملاقات ایک تاثراتی مضمون سے کہیں بڑھ کر ایک سبق آموز تجربہ تھا۔ حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کی ثابت قدمی، ان کا صبر اور ان کا ایمان ہم سب کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جلد رہائی نصیب فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔



0 تبصرے