Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

حضرت علامہ مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری مدظلہ العالی شیخ الحدیث دارالعلوم سے پہلی گفت وشنید



کتبہ ...... منظوراحمدقاسمی اسعدنگر ملوا



شیخ العرب والعجم حضرت مدنی علیہ الرحمہ  تواضع کسر نفسی اور فروتنی میں  سلف صالحین کی یادگار تھے، اللہ جل جلالہ نے حضرت مدنی میں بیشمار فضائل.ومناقب ودیعت فرمائے تھے، وہ علوم  ظاہری کے ساتھ علوم باطنی کے شہسوار اور شناورتھے، وہ فارس بالنہار راہب بالیل کی مثالی تصویر تھے،وہ اپنے دورمیں ولایت کے ایک خاص مقام پر فائز تھے،

جن خوش قسمت افراد نے حضرت مدنی علیہ الرحمہ کےفیوض وبرکات سے بھرپور استفادہ کیا، وہ اپنے زمانے کی یگانہ ونابغہ روزگار شخصیات   بن کر اہل جہاں کواپنے باطنی انوارات سے سے منور کررہے ہیں، اور حضرت مدنی سے شرف تلمذحاصل ہونے کی وجہ سے اپنے دور کے علماء میں امتیازی شان  وحیثیت کے حامل ہیں، خواص وعوام دونوں طبقوں میں مقبولیت   ومحبوبیت کے دھنی ہیں،اور مرجع خلائق   ہونے کاشرف حاصل ہیں،


انھی خوش قسمت افراد  میں   حضرت علامہ قمرالدین گورکھپوری کانام سرفہرست ہے، حضرت علامہ  کو حضرت مدنی علیہ الرحمہ  سے  بخاری شریف   پڑھنے کاشرف حاصل ہے، حضرت علامہ قمرالدین   زیدمجدہم  دارالعلوم دیوبندکے قدیم ترین   مقبول وہردلعزیز استاذ حدیث ہیں، تقریبا نصف صدی سے دارالعلوم جیسی مقدس دینی درسگاہ میں مسند تدریس پر جلوہ گر ہیں،خود کاتب السطور نے حضرت علامہ کی  زبانی سنا کہ میں(  حضرت علامہ) اس دور میں دارالعلوم میں تدریسی  خدمت کےلیےمنتخب  ہوا،جس وقت دارالعلوم میں باقاعدہ درجہ بندی نہیں تھی، طالب علم خودمختار ہوتا کہ جس استاذ کے پاس جوکتاب پڑھناچاہے،اس کےپاس پڑھ لے، مزید حضرت نےکہاکہ اللہ کے فضل اور اساتذہ کے دعاؤں کےطفیل  میرے پاس طلبہ شوق وذوق کےساتھ پڑھنےآتے تھے، بحمدہ تعالی مجھے طلبہ   میں اچھی خاصی مرجعیت حاصل تھی،حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ طاہر گیاوی ( حضرت علامہ کےالفاظ)___ مناظر اسلام حضرت مولاناطاہر گیاوی ____نے بھی مجھ سے میبذی پڑھی ہے،حضرت علامہ نے انکی ذہانت وفطانت کی خوب تعریف فرمائی،دارالعلوم کے موجودہ مہتمم  نمونہ اسلاف حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم کے اساتذہ میں آپ کاشمار ہوتا ہے،صوبہ راجستھان کی عظیم  شخصیت عارف باللہ حضرت اقدس مولانا وقاری محمدامین صاحب دامت برکاتہم صدر رابطہ مدارس عربیہ صوبہ راجستھان   بھی حضرت کے اجل تلامذہ میں سے ہیں، حضرت قاری صاحب نے سال ہفتم میں ہدایہ رابع کے اسباق پڑھے ہیں،خود علامہ نے بھی کئی بار اس کاتذکرہ بھی  کیاتھا،


سنہ ۲۰۱۰ عیسوی میں بندہ نابکار نے مادر علمی دارالعلوم پوکرن  سے   سال ششم عربی سے فراغت کےبعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں اساطین علم وفن کے خوان سے کاسہ لیسی کرنے کے رخت سفر باندھا،اور الحمدللہ حضرات اساتذہ کرام کی توجہات  دعائیں نیم شبی اور آہ سحرگاہی کی بدولت مطلوبہ درجہ عربی ہفتم میں داخلہ  ہوگیا،اللہ تعالی نے دارالعلوم دیوبند کے نام میں ایسی چاشنی ومٹھاس رکھی ہے کہ سامع کو اس کی لذت محسوس ہوتی ہے، اور دیوبند کی کوخ میں ایسے اصحاب فضل وکمال  وعلم وفن کے شہسوار حضرات کی ایک بڑی جماعت محواستراحت ہے،جنکی انفاس  قدسیہ سے آج بھی دیوبند کی گلی گلی معطر اور مہک رہی ہے، اور شہردیوبند میں نووارد ایک قلبی سکون ودلی اطمینان  محسوس کرتاہے،دیوبندکی سرزمین ایسے اکابر اہل اللہ نے جنم لیا،جنھوں نے اپنی عملی تصویر سے دور صحابہ کی یادیں تازہ کردیں،اور دیوبندکی  چھوٹی سی بستی میں ایسے علوم عقلیہ ونقلیہ کی  شخصیات  نے انکھیں کھولیں،جو امام غزالی  ابن حجر عسقلانی، علامہ عینی جیسی باکمال شخصیات کی جیتی جاگتی تصویر تھیں،ایسے بابرکت اور عظمتوں کےحامل شہرِدیوبندمیں مکمل دوسال رہنے کا دست قدرت نے موقعہ دیا،



موجودہ دور میں دارالعلوم دیوبند میں مسندتدریس کو زینت بخشنے جمیع اساتذہ حدیث مبارکہ(   إن خيار عباد الله الدين  إذا رؤوا ذكرالله) کے حقیقی مصداق ہیں،جنکی روشن جبیں، منورچہروں کادیدار ہی مصیبت کےماروں اور غمزدوں کےلیے سکون وراحت کاسامان مہیاکرتاہے،جنکی دید ولقاء سے انسان خداکی طرف متوجہ ہوجاتاہے، خداکے فضل وکرم سے ایسے اساتذہ کی زیارت ہی نہیں بلکہ استفادہ کاموقعہ ہاتھ آیا،


دارالعلوم دیوبند کے موجودہ اکثر اساتذہ حضرت علامہ قمرالدین گورکھپوری کے حلقہ درس سے فیضیاب ہیں، بلکہ ملک وبیرون ملک کبار علماء نے حضرت علامہ کے خوشہ چینں ہیں،  

حضرت مولانا عبدالحق صاحب علیہ الرحمہ کے وصال کےبعد مجلس تعلیمی دارالعلوم دیوبندکےمعززاراکین نے حضرت علامہ کی صلاحیت وصالحیت کودیکھتے ہوئے بخاری  جلدثانی کادرس  تفویض فرمایا، حضرت علامہ کبر سنی  اور بوڑھاپے کی وجہ سے ہورہے مختلف عوارض اور درپیش جسمانی تکالیف کےباوجود مکمل پابندی  کےساتھ بخاری شریف کادرس کی ذمہ داری نبھارہے ہیں، حضرت والاکادرس بخاری حشووزوائد  سے منزہ ہوتاہے، غیرضروری مباحث   کوکبھی بھی موضوع بحث نہیں بناتے،   طلبہ کی باطنی  اصلاح کےپیش نظر گاہیں گاہیں اکابرین کے اصلاحی واقعات   دوران درس بڑی دلچشپی سے بیان کرتے ہیں،  خصوصا حضرت شیخ الاسلام کے اتباع سنت کےواقعات  سنانے کامعمول بہت زیادہ ہے،  حضرت علامہ کواپنے استاذ حضرت مدنی سے بےانتہامحبت ہے، جس کااظہار ہمیشہ  ہی کیاکرتے تھے، 


بندہ کو حضرت علامہ سے بالمشافحہ گفت وشنید اور قریب سے ملاقات کاموقعہ سال ہفتم میں نصیب ہوا، اس کی تفصیل کچھ  اس طرح ہے کہ سال ہفتم میں ششماہی تعطیلات  میں دس روز کےاپنے وطن مالوف ملوا آیاہواتھا، تعطیلات کے ختم  پر مادر علمی دارالعلوم پوکرن  کےمہتمم اور سالارقافلہ حضرت اقدس مولانا وقاری محمدامین صاحب   مدظلہم العالی اور تمام اساتذہ کی دید ولقاء کے شوق نے دارالعلوم پوکرن آپہنچایا،تمام اساتذہ سے فردا فردا ملاقات  سے بہرور ہوا، ہرایک استاذبڑی  خاطرومدارات اور محبت کابرتاؤکیا، اور ماحضر سے مہمان نوازی کی،  اخیر میں جب حضرت مولانارئیس الدین صاحب پھلودی  سابق استاذ دارالعلوم پوکرن سے ملاقات کےلیے انکی قیامگاہ پرحاضرہوا،مولانابڑی خندہ پیشانی سے   پیش آئے، چائے اور اسکے لوازمات سے   سے مہمانی کی، حضرت مولانارئیس الدین صاحب  حضرت علامہ کے خصوصی تربیت یافتہ ہیں، زمانہ طالب علمی ہی میں حضرت کے دست حق پرست پر بیعت کرلی تھی، حضرت علامہ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوکر بہت جلد سلوک ومعرفت کےمنازل طے کرکے   تعلق مع اللہ میں بلند مقام  حاصل کرلیا، حضرت  علامہ کے خلیفہ مجاز بھی ہیں، علامہ کے بہت بڑے مداح اور عاشق زار ہیں، مولانا نے اسی تعلق کو خاطر ملحوظ رکھتے ہوئےبحجرت علامہ کے لیے پوکرن شہر کی مشہور مٹھائی میرےساتھ بطور ہدیہ ارسال کی-اوردو ڈبے مجھے سپرد کئے،



اگلے روز بعد نماز عصر پوکرن سے جموں توی جانے والی ایکسپریس   ٹرین میں سوار ہوکر مادر علمی دارالعلوم  دیوبند کےلیے عازم سفر ہوا،اساتذہ کی ملاقات ودیدار کےلیے دل مچل رہاتھا،مشکاة المصابیح کے درس کامسرت انگیز اور فرحت  بھرا منظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا،درسگاہوں میں اساتذہ کرام کی آمد ورفت کادلربا وپرکیف منظر   کاتصورطوالت سفر سے ہورہی تکلیف    کو ختم کئے جارہاتھا،سفر میں تنہاہونے کی وجہ سے کسی ناگہانی اور ناگوات واقعہ کے پیش آنے کے ڈر سےدل ہی دل میں اللہ سے لو لگاکر خاموشی کےساتھ ٹرین میں اترنے وچڑھنے ولی بھیڑ کی گہاگہمی  کودیکھ رہاتھا، اتنا لمبا سفر کسی ساتھی کےبغیر قطع کتنا تکیلف دہ اور صبر آزما کام ہے، اس سے وہی حضرات واقف ہیں،جن کو کبھی طویل سفر پر جانے کی نوبت آئی ہو،


یادش بخیر. دوران سفر حضرت علامہ سے ملاقات  کےلیے پروگرام خاکہ تیار کرنے لگا، حضرت علامہ جیسی بھاری بھرکم شخصیت سے ملاقات  مجھ جیسے نوارد طالب علم جن کوا بھی   دارالعلوم کے احاطے میں چار ماہ  گزار نے کاہی موقعہ ملا، کسی امرمشکل  کوسر انجام دینے سے کم نہیں تھا، مجھ جیسے طفل مکتب کا علامہ قمرالدین جیسی عالمی  شخصیت کی خدمت میں پہلی بار  حاضرہونا بہت مشکل کام تھا،دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور دگر تمام اساتذہ کےعظیم استاذ سے  بغیر کس سابقہ تعارف  کے ملاقات کی جسارت کیوں کرسکتاتھا؟ پورے سفر میں یہی سوچتارہاکہ مولانارئیس الدین صاحب کی ارسال کردہ امانت کو حضرت علامہ تک کس طرح پہنچاؤں، 

خیر دارالعلوم دیوبند پہنچتے ہی  اپنے متعارف وشناسا طلبہ برادری سے علامہ سے ملاقات کاوقت معلوم کرنےپر پتہ چلاکہ علامہ بعد نماز عشاء  طلبہ سے ملاقات کرتے ہیں، اس کے علاوہ  دگراوقات میں مخصوص طلبہ کوہی  ملنے کی اجازت ہے، چنانچہ مٹھائی کاڈبہ کالےکر عشاء کی نماز کےبعد حضرت علامہ کے دولت   کدہ پر __   جو مہمان دارالعلوم کے عین پیچھے واقع ہے__  حاضر ہوگیا،ڈرتے اور سہمتے ہوئے حضرت کی قیامگاہ پر نصب شدہ گھنٹی کے بٹن کودبایا کہ خداجانے اندرسے کیاجواب ملےگا،، تھوڑی سی دیر کےبعد اندر سے حضرت ہی نے فرمایا،کہ  کھڑے رہیے، بس تھوڑے سے انتظار کےبعد حضرت نے اپنی بیٹھک کادروازہ  کھولا، یقین مانئے، مجھے ایسا لگا کہ إن هدا إلا ملك كريم    کی تصویر میرے سامنے ہیں، خوبصورت گلابی وپرنور  چہرہ   جس پر عبادت وریاضت اور ذکراللہ کےانوارات سے  مکھڑا جگمگارہاتھا،موٹی حسین  وجمیل آنکھیں جس نے وقت اولیاءاللہ کی  زیارت کی ہے، چہر ہ کے حسن وملاحت کو مزید نکھار رہی تھی، حضرت علامہ نے دروازے پر کھڑے  کھڑے فرمانےلگے، کون ہو؟ لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے جواب دیا کہ صوبہ راجستھان سے ہوں، دارالعلوم دیوبند  میں عربی ہفتم کاطالب علم ہوں، اس پر حضرت نے اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمائی،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے